مئی 1998 کو پانچ بج کر 35 منٹ پر تربت انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے اڑان بھرنے والا پی ائی اے کا فوکر27 طیارہ نمبر 554PK گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے کراچی جانے کو تیار تھا اس طیارے میں 33 مسافر جبکہ پانچ عملے کے افراد سوار تھے چند ہی منٹوں میں جہاز ہوا میں تیرنے لگا
اڑان کے تقریبا 20 منٹ بعد ایک شخص اپنی سیٹ سے اٹھا اور کاکپیٹ کے جانب بڑھنے لگا اس شخص کو کاکپٹ کی جانب بڑھتا دیکھ کرایئر ہوسٹ خالدہ افریدی نے انہیں روکا اور کہا کہ وہ اپنی سیٹ پر بیٹھ جائیں مگر یہ شخص ایئرہوسٹ خالدہ افریدی کو دھکا دے کر کاکپٹ کے اندر چلا گیا اندر پہنچتے ہی اس شخص نے اپنی گن نکالی اوکیپٹن عزیز خان کے گردن پر رکھ کر کہا کہ وہ اس کے حکم کا پابند ہے اسی لمحے دو مزید افراد اپنی سیٹ سےبرامد ہوئے اور اپنی پسٹلز نکال کر مسافروں پر تان دی ۔ان دونوں افراد میں سے ایک نے اپنے بدن پر بارودی مواد باندھ رکھا تھا طیارے میں خوف سرائیت کر گیا جہاز میں لگے اسپیکر بجنے لگے لیڈیز اینڈ جنٹلمین میں ہوں اپ کا کیپٹن عزیز خان مجھے بتاتے ہوئے انتہائی افسوس ہو رہا ہے کہ ہمارا طیارہ ہائی جیک ہو چکا ہے اس کے ساتھ ہی کاکپٹ میں موجود شخص نے کیپٹن عزیز خان کو حکم دیا کہ جہاز کے رخ کو کراچی سے ہٹا کر دلی انڈیا موڑ دیا جائے اور انڈین حکام سے دلی ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے کی اجازت مانگی جائے کیپٹن عزیر نے اجازت مانگنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے جہاز کے سمت کو موڑ دیا یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان ایر بیس ہیڈ کوارٹر میں افرا تفری مچ گئی کیونکہ ریڈار پر جہاز اپنی سمت بدلتا ہوا دکھائی دے رہا تھا طیارے کو
سمت بدلتا دیکھ کر پاکستان ایئر فورس کے دو فائٹرجٹ ہوا میں بلند ہوئے اور طیارے کا تعاقب کرنے لگے ہائی جیکر نے حکم دیا کہ انڈین ایر بیس کے حکام سے رابطہ قائم کیا جائے بظاہر حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کیپٹن عزیز خان نے پاکستانی ایئر بیس ہیڈ کوارٹر سے رابطہ قائم کیااور مخصوص کوڈ کہتے ہوئے ہیں انہوں نے پوچھا کیا یہ دلی ایئرپورٹ ہے یہ کہتے ہی کیپٹن عزیر خان نے رابطہ منقطع کر دیا کیپٹن عزیز کے بولے ہوئے کوڈ سے پاکستان ایئر بیس ہیڈ کوارٹر میں موجود حکام سمجھ گئے کہ طیارہ ہائی جیک کر لیا گیا ہے کیپٹن عزیر کو سکرین پر نظر انے والے سگنل سے معلوم ہو چکا تھا کہ وہ دو عدد فائٹر جٹ کے زد میں ہیں دوسری جانب ایئرپورٹ ہیڈ کوارٹر میں اعلی حکام کی ارجنٹ میٹنگ میں ایکشن پلان بنایا جا چکا تھا یہ معلوم ہو چکا تھا کہ دہشت گرد جہاز انڈیا لے کر جانا چاہتے ہیں لیکن ایکشن پلان میں فیصلہ یہ ہوا کہ طیارے کو حیدراباد سندھ ایئرپورٹ پر اتارا جائے گا اس اپریشن کے لیے پاکستان پولیس فورس کے اعلی تربیت یافتہ دستے کے ساتھ ساتھ سپیشل سروس گروپ اور پاکستان رینجرز کا دستہ بھی الرٹ تھا کیپٹن عزیز خان نے
دہشت گردوں کے لیے بہانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس کافی ایندھن نہیں ہے جو ہمیں دلی لے جا سکیں ہمیں قریبی ایئرپورٹ سے ایندھن اور خوراک لینا پڑے گی ہائی جیکرز کا تعلق بلوچستان سٹوڈنٹ تنظیم سے تھا اور وہ ہر صورت جہاز نیو دلی لے جانا چاہتے تھے ان کے پاس نقشہ بھی تھا وہ بار بار نقشہ دیکھتے ہوئے برج ایئرپورٹ کو نقشے میں دیکھ کر ذکر کر رہے تھے ان کی باتیں سن کر کیپٹن نے کہا کہ انڈیا کا بھج ایئرپورٹ قریب پڑتا ہے وہاں تک جہاز جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے انڈین ہیڈ کوارٹر سے اجازت لینا ہوگی اب اگلا مرحلہ بج ایئرپورٹ رابطہ کر کے لینڈنگ کی اجازت لینے کا تھا کیپٹن عزیز جانتے تھے قریبی ایئرپورٹ سندھ کا حیدراباد ایئرپورٹ ہی تھا انہوں نے وہاں رابطہ کرتے ہوئے یہ پوچھا کہ کیا یہ بجھ ایئرپورٹ ہیں کیا اپ مجھے سن سکتے ہیں یہ پاکستانی حکام کو ان کا سیکرٹ سگنل تھا کہ دہشت گرد بھج ایئرپورٹ اترنا چاہتے ہیں جواب میں ڈپٹی کمشنر حیدراباد سہیل شاہ نے کال ہینڈل کرنا شروع کی ہندی زبان میں بات کرتے ہوئے انہوں نے اپنا تعارف ڈپٹی کمشنر راجستھان کی حیثیت سے کروایا انہوں نے ھائی جیکروں سے مذاکرات کرنا شروع کر دیے ڈپٹی کمشنر نے سوال کیا کہ اپ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں انہوں نے جواب دیا کہ وہ بلوچستان کی ازادی کی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں ہمارے پاس یہاں 33 مسافر ہیں پانچ عملے کے لوگ ہیں وہ حکومت پاکستان کے انڈیا کے مقابلے میں نیوکلیئر تجربے کرنے کے خلاف ہیں اور اس ہائی جیک سے وہ پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں کہ وہ یہ تجربے نہ کریں اس کے ساتھ ہی انہوں نے جہ ہند کے نعرے لگائے اور کہا کہ وہ انڈیا کی مدد کریں گے اور پاکستان کا یہ جہاز انڈیا لے کر داخل ہونا چاہتے ہیں انہیں بھج ایئر بیس پر اترنے دیں تاکہ جہاز ایندھن اور مسافروں کو خوراک پانی دیا جائے ڈپٹی کمشنر نے ان سے ان کی شناخت کے بارے میں پوچھا ہائی جیکر نےنے اپنا نام شاہ سوار اور اپنے دونوں ساتھیوں کا نام صابر شبیر اور رہائشی علاقوں کے بارے میں بتایا کہ وہ بلوچستان سٹوڈنٹ فیڈریشن سے تعلق رکھتے ہیں ڈپٹی کمشنر کے ساتھ بیٹھے ایس ایس پی اختر گریانی نے منٹوں میں ان کا ڈیٹا حاصل کر لیا کچھ تگ و دو کے بعد انہیں بتایا گیا
کہ پردھان منتری سے بات کرنے کے بعد ان کی ڈیمانڈ منظور کرتے ہوئے بھج ایئرپورٹ اترنے کی اجازت دے دی گئی ہے خوشی سے دہشت گردوں نے یہ ہند اور جے ماتا کی جے کے نعرے لگائے جبکہ دوسری جانب ہیڈ کوارٹر سے بھی جے ہند کے نعرے لگائے گئے ہنگامی طور پر حیدراباد ایئرپورٹ سے پائلٹس کو کال کر کے تمام جہازوں کو ایئرپورٹ سے ہٹانے کا حکم دیا گیا شکار کے لیے جال تیار کیا جا رہا تھا پولیس فورس نے ایئر بیس کی جانب جانے والے تمام راستے بند کر دیے کمانڈوز اور رینجرز مستعد کھڑے تھے افسران کی نگاہیں اسکرین پر تھی اب جہاز نے ٹائم پاس کرنا تھا اس لیے کہ وہ پہلے ہی سے حیدراباد کی حدود میں ہی تھا کیپٹن عزیر کمال ہوشیاری اور ذہانت سے جہاز مزید بلندی پر لے گئے اور وہیں ایک زون میں گھماتے رہے اور ظاہر یہ کرتے رہے کہ وہ انڈیا جا رہے ہیں جبکہ فائٹر جیٹ ان کے ارد گرد تھے فائٹر جیٹ ان کو مانیٹر کر رہے تھے جن کا کیپٹن عزیر کو بخوبی علم تھا رات کے اس وقت حیدراباد ایئرپورٹ پر تمام لائٹس بند کر دی گئی ساتھ میں سارے شہر کی بجلی بھی بند کر دی گئی اور تمام مساجد میں اذانیں دینے پر پابندی لگا دی گئی ایئرپورٹ سے پاک سرزمین کا ہلالی پرچم اتار کر انڈیا کا پرچم لہرا دیا گیا ہیڈ کوارٹر سے ہدایات ہندی میں دی جا رہی تھیں اور پھر کیپٹن صاحب جہاز کو لے کر ریڈار سگنلز کو فالو کرتے ہوئے حیدراباد ایئرپورٹ پر لینڈ کر گئے سارا ایئرپورٹ خالی تھا وہاں ہائی جیکروں نے انڈیا کا پرچم لہراتے دیکھا تو جی ہند کے نعرے بلند کیے ساتھ میں کیپٹن عزیر کو گالیاں دیں تمام کمانڈوز فورس کے جوان اور ارمی رینجرز گھات لگائے جہاز کے اترنے کا انتظار کر رہے تھے جہاز اترتے ہی پولیس فورس اور رینجرز نے گپ اندھیرے میں گاڑیاں جہاز کے اگے کھڑی کر دی کہ وہ ٹیک اف نہ کر سکیں ہائی جیکروں نے فلائٹ انجینیئر سجاد چوہدری کو ہوائی اڈے کے حکام کو ان کے مطالبات بشمول خوراک پانی اور تیارے کے لیے اندھن کےبارے میں اگاہ کرنے کے لیے بھیجا پولیس نے ہائی جیکروں سےملنے کا فیصلہ کیاععملے کے روپ میں دو اہلکار عثمان انور اور اختر گوریانی بات چیت کے بہانے جہاز میں بغیر ہتھیار کے جائزہ لینے کے لیے داخل ہوئےانہوں نے اپنا تعارف رام اور منوج کے نام سے کروایا انہوں نے ہائی جیکروں سے اس سے بات چیت کرنا شروع کی گویا یہ انڈیا تھا اور یہ بھج ایئرپورٹ ہے دہشت گرد ایندھن اور خوراک چاہتے تھے لیکن بات چیت طویل ہوتی جا رہی تھی دونوں اہلکاروں کا ہدف تھا کہ وہ جہاز کے اندر کی صورتحال کا جائزہ لیں خاص طور پر وہ شخص جس نے جسم پر پیکٹ باندھ رکھے تھے وہ ان کے ہتھیاروں کو بھی دیکھنا چاہتے تھے کہ ایکشن کی صورت میں جہاز میں موجود خواتین اور بچوں کو کس طرح محفوظ رکھ سکتے ہیںایس ایس پی اختر گریانی نے دہشتگردوں کو قائل کیا کہ اپ پہلے ہی انڈیا میں ہو اس لیے عورتوں اور بچوں کو یہیں اتار کر اپ دلی چلے جاؤ رات 11 بجے جہاز سے اخر عورتیں اور بچے اترنا شروع ہوئے ان مسافروں کے جہاز سے اترنے کی دیر تھی کہ جہاز کے چاروں طرف اندھیرے میں خاموشی سے رینگتے ہوئے کمانڈوز ایک ہی حلے میں تیزی کے ساتھ پہلے اور دوسرے دروازے سے اللہ اکبر کی جنگھاڑ کے ساتھ دہشت گردوں پر حملہ اور ہوئے اللہ اکبر کے نعرے نے دہشت گردوں کو حیرت زدہ کر دیا کہ یہ انڈیا میں اللہ اکبر کا نعرہ کیسے بلند ہوا بدحواسی میں ایک دہشت گرد نے فائر کیا جو ضائع گیاتقریبا دو منٹ کے اندر تینوں دہشت گردوں کو قابو کر کے باندھ دیا گیا وہ حیران پریشان تھے یہ بھج ایئرپورٹ پر اللہ اکبر والےکہاں سے ا گئے چیف کمانڈو نے اگے بڑھ کر زمین پر بندھے ہوئے دہشت گردوں کی طرف جھکتے ہوئے ان کی حیرت زدہ انکھوں میں دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا ویلکم ٹو پاکستان کیپٹن عزیر بڑے ہی سکون سے بیٹھے ساری صورتحال خاموشی سے دیکھ رہے تھے پھر وہ بڑے ارام سے اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے دہشت گردوں کے قریب سے مسکراتے ہوئے جہاز سے اتر گئے اور اخر کار بغیر کسی جانی نقصان کے یہ اپریشن اپنی تکمیل کو پہنچا 17 سال بعد 2015 میں تینوں دہشت گردوں کو 28 مئی کو سزائے موت دے دی گئی صحافیوں کے سوال پر کیپٹن عزیز بولے اگر دشمن یہ سمجھتے ہیں کہ ہم موت سے ڈرتے ہیں تو سن لیں مسلمان موت سے نہیں ڈرتا اور شہادت مسلمان کے لیے انعام ہے پاکستان انشاءاللہ ہمیشہ قائم و دائم رہے گا پاکستان زندہ باد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں