السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); یہ کتاب شیخ محمد محمود الصواف نے لکھی ہے اس کا ترجمہ شمس الحق ندوی نے کیا ہے کتاب کے پیش لفظ کتاب ” قیامت کا منظر ، بلاد عربیہ کے مشہور عالم دین شیخ محمودالصواف کی نہایت موثر و مفید کتاب «القیامتہ رائی العین.. کا ترجمہ ہے جس کی اہمیت وضرورت اور اس کے مصنف کے تعارف میں حضر عشرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ العالی نے مقدمہ میں جو کچھ تحریر فرما دیا ہے وہ کافی ہے ۔ اس کتاب کو چونکہ افادہ عام کے خیال سے اردو کے قالب میں منتقل کیا گیا ہے ۔اس لئے کتاب کے مصنف نے جہاں کہیں عربی الفاظ روائتیں یا تفسی کو پیش کیا ہے اس کا ترحم نہیں کیا گیا ہے تاکہ کتاب کے پڑھنے تحقیق پر بحث کی ہے یا آیت کے عام مفہوم کے علاوہ علماء کی دوسری والے پر تاثر، اور خضوع وخشوع کی جو کیفیت طاری ہوئی ہے وہ حقیقی ہم نے سے ختم نہ ہو جائے اور یہ عام قارئین کے ذوق کی چیز بھی نہیں۔ لیکن بحصہ کچھ زیادہ نہیں پوری کتاب میں شاید ۲۰ صفحہ کا اوسط ہو گا جو چھوڑ دیا گیا۔ اس صراحت کی ضرورت اس لئے بھی گئی کہ مبادا کسی کو بی خیال ہوکہ ترجمہ میں دیانت داری سے کام نہیں لیا گیا ہے منجانب شمس الحق ندوی مقدمہ الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على اشرف المرسلين وخاتم النبيين وعلى اله وصحبه اجمعین ۔ قرآن مجید سے عمولی واقفیت رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ الٹرکی اس آخری کتاب میں جو قیامت تک باقی رہنے والی ہے۔ قیامت ،حشر و نشرحساب کتاب جنت کی نعمتوں اور جہنم کی ہولناکیوں اور لرزہ خیز مذاب کی شکلوں کا کتنا تذکرہ ہے اور اس کو قرآن مجید نے اپنی مجزانہ اور دلوں کو لرزہ دینے والے انداز میں کس کس طرح اور کتنی بار دہرایا ہے اور اس کو خوف و خشیت پیدا کر نے ، دنیا کی غفلت سے بچانے اور اصلاح اعمال احوال کا جذبہ اور عزم پیدا کر نے کا ذریعہ بنایا ہے ۔ حقیقت میں ایمان بالشر، ایمان بالرسالہ کے بعد یہی وہ مقصدا و مضمون ہے جس کا حقہ قرآن میں سب سے زیادہ ہے خاص طور پر آخر کے دو پارے اسے ذکر سے بھرے ہوئے ہیں۔ اور آخری پارے کا تومرکزی مضمون ہی ہے اوراس میں اس کو نئے نئے اسلوب اور طریقوں سے بیان کیا گیا ہے ۔ ان سب سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن مجید اور نبوت کی تعلیمات ، انسان کا انٹر کے ساتھ رابطہ ایمانی کیفیت خوف وخشیت ایمان واحتساب کی زندگی دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے کی عادت و ملکر اور موجودہ زندگی کو جو تمام دینے کی نوعیت چاہتا ہے ، وہ قیامت کے استمنا اوراس کے ایسے یقین اور اس کے ایسے تاثر کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ گویاکہ آرمی نے اسکو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اور سارے مناظر اس کی نظر کے سامنے ہیں، اور بعض تصور کی بات نہیں، تمثل اور مشاہدہ کا مقام ہے۔ اس بارے میں قرآن مجید کا اعجاز ایسا نمایاں ہے کہ عربی ادب و بلاغت کے بعض ماہرین نے اس مستقل کتا میں بھی میں کس طرح قرآن مجید نے ان حقیقتوں اور مناظری آنکھوں کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا ہے اور غیب کو شہود بنادیا ہے۔عصر حاضر کے ایک مشہور ادیب ونقاد سید قطب کی پوری کتاب" مشاهد القيامـة الــــــرآن موجود ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ ادھر تقریبا نصف صدی یا اس سے زائد مدت سے مضمون اس طبقہ کو چھوڑ کریسی کی تعلیم وتربیت بالکل جدید ہے ۔ دیندار اور صاحب علم طبقہ کی محفلوں ،گفتگوؤں، دینی مواعظ اور تقاریر اور ذکر وتزکیہ کے دائرے سے بھی تقریبا خارج ہوگیا ہے، خالص دینی جلسوں میں بھی کبھی بھولے سے اس کا تذکرہ آجاتا ہے اور بہت سے واعظ ومقرراس کا تفصیل سے تذکرہ کر نادر دلوں میں اسکی عظمت و اہت پیدا کرنا چستان اور دانشر معاف کرے کوالی تقریروں اور کم خوانده ہو نے کانشان سمجھنے لگے ہیں ۔ ساراز دریای مضامین، نکیر آفرینیوں، اور اسلام کو عصر جدید کے تقاضوں اور علمی تحقیقات کے مطابق محبت کرنے پر صرف کر دیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ قلوب داز ہان ، ادرسامعین و قارئین اس سے روز بروز غافل ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ اور دین کی ایک اساس اگر منہدم نہیں تو روز بروز کمزور ہوتی چلی جارہی ہے اور اس امت میں دہ مزاج نہیں پیدا ہورہا ہے تو خدا کے پیغمبر اور آسمانی کتابیں پیدا کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن ساٹھ ستر برس پہلے عرب اور خالص اسلامی ملکوں کا نہیں خود ہندوستان کے مسلمانوں اور خواص کو توڑ کر عوام کا معا میں دوسرا نا وا ء ا اور دینی تقریروں کا ایک بڑاحصہ راهنمه اس تذکیر آخرہ کے ساتھ سوس تھا جس کا دل و دماغ پر اثر ہوتا تھا جو آج بڑی بڑی حکیما ن نفر بیروں، علمی مضامین اور سحرانگیز خطابت کا بھی نہیں ہوتا۔ سننے والوں کے دلوں میں ایسا خوف، دماغوں میں ایسا نتیقاظ اور اصلاح حال کا ایسا بندہ بہ پیدا ہوتا تھا جو آج کل کے بیسیوں سیرت کے جلسوں اور مواعظ کی محفلوں میں نہیں ہوتا ندان ضخیم و دقیق پرشکوہ کتابوں سے جن میں اسلام کوعقلی وعلمی مذہب ثابت کیا جا تا ہے اس زمانہ میں کسی مستندعالم کی کسی ایسی کتاب پڑھنے کا مردوں کو چھوڑ کر عورتوں میں بھی رواج تھا جس میں علامات قیامت اور دوسری زندگی کے منازل ومراحل، میدان حشر کی کیفیت ، حساب وکتاب پل سراط جنت کی نعمتوں اور لذتوں اور جہنم کی اذیتیوں اور کافتوں کا آیات قرآنی اور صحیح احادیث کی روشنی میں مفصل بیان ہوتا تھا۔ میرے میں میں ہمارے خاندان میں ایک کتاب و آثارحشری پڑھی جاتی تھی جو غالباً حضرت شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی کی عربی یا فارسی کتاب کا ترجمہ تھا مستورات میں ایک اور کتاب بھی پڑھی جاتی تھی جس کا نام غالبا راه نحبـات تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ان کتابوں کے پڑھنے سے سننے والوں پر وہ اثر ہوتا تھا کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے، آنکھیں پر آب ہوجاتی تھیں اور چہرے خوف وخشیت سے تمنا اکٹھتے تھے اور اس سے زندگیوں میں وہ تبدیلیاں پیدا ہوتی تھیں جو آج بڑی بڑی نـاضلانہ تقریروں اور عالمانہ کتابوں سے نہیں پیدا ہوئیں۔ عام طور پر اس وقت ہمارے دینی وعلمی حلقوں میں بھی یہ موضوع تقریبا متروک ہوگیا ہے اور شاذ و نادر کوئی کتاب یا مضمون تذکیر بالآخرۃ یا قیامت کے مناظر دیکھنے میں آتا ہے۔ بڑی خوشی او اور توفیق کی بات ہے کہ ہمارے فاضل دوست عالم عربی کی ایک معروف شخصیت سیخ محمد حمودالشواف کے نام سے ایک سے چند سال پہلے شائع ہوئی جس میں اس وصیت نبوی کی تعمیل کی گئی ہے بہت مؤترادرمستند کتاب” القيامة أى العين “ کے نام ۔ کہ جس کو اس کا شوق ہوکہ قیامت کو اس طرح دیکھے کرگو یا آنکھوں دکھی چیز ہے تو وہ آخری پارے کی آخری سورتیں إذا الشمس كورت واذ المساء انفطرت اور اذا السماء انشقت پڑھے ۔ شیخ محمودالصواف نے ان ہی تینوں سورتوں کی تفسیر و تشریح کو اس کتاب کی اساس بنایا ہے اور اس میں احادیث صحیحہ کا اضافہ کیا ہے اور اپنے بلیغ قلم اور وسیع مطالعہ اور قوت ایمانی سے اس کو عام فہم اور ہرطبقہ کے لئے موثر بنانے کی کوشش کی ہے ۔ وہ جامع ازہر کے ایک مستند عالم عراق کے ایک دینی مصلح، جماعت اخوان المسلمین کے ایک معروف کنفراند، رابطہ عالم اسلامی کی میں وزارت تعلیم کے مستشار اور اس وقت عالم عربی سے ممتاز ترین خطیبوں میں ہیں ، مجھے اپنے ایک سفر میں اس کتاب کا علم ہوا میں مصنف سے ایک نسخہ اس شوق میں ہندوستان لایا کہ اس کا روا میں ترجمہ کیا جائے اور عرصہ سے جو خلا ہمارے دینی حلقہ وعظ و تذکیری پایا یس ایس کے شروع سیری در این جاتا ہے اس کو پر کیا جاۓ۔ مقام شکر دمسرت ہے کہ ہمارے عزیز درفیق مولوی شمس الحق ندوی مدیر تعمر حیات نے اس کام کا ذمہ لیا۔ اور کتاب کا ترجبکر کے تعمیرحیات میں بالاقساط شائع کرنا شروع کر دیا ہے مجھے معلوم ہوا ہے کہ قارئیں کو س سے بڑا فائدہ پہونچا۔ اب مزیزمونسور سوال ہے کہ اس کو کتاب کی صورت میں شائع کریں ۔ انہوں نے مجھ سے خواہش ظاہر کی کہ میں اس پر پیش لفظ کے طور پرکھ لکھ دوں ۔ ان کی اس خواہش کے احترام میں ی چند سطور لکھی جارہی ہیں ۔ ایسی حالت میں لکھ رہے ہیں کہ ایک مرد نی سفر کے لئے پابہ رکاب ہوں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب لوگوں کو نفع پہونچائے اور مصنف، مترجم کا مقصد حاصل ہو۔ا وران سب لوگوں اور اداروں کو ثواب ملے جن کا اس میں حصہ ہو ۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ابوالحسن علی ندوی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں