ختم نبوت کورس"
سبق نمبر 1
"عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت"
عقیدہ ختم نبوت کیا ہے؟
عقیدہ ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ نبیوں کی تعداد حضورﷺ کے دنیا میں تشریف لانے سے پوری ہوچکی ہے ۔ حضورﷺ کے بعد نبوت اور رسالت ختم ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت کسی بھی انسان کو نبوت یا رسالت نہیں ملے گی۔ یعنی تاقیامت نبیوں کی تعداد میں کسی ایک نبی کا اضافہ نہیں ہوگا۔
"قرآن مجید کا اسلوب "
قرآن مجید نے جہاں اللہ تعالٰی کی وحدانیت، فرشتوں پر ایمان ،قیامت پر ایمان کو جزو ایمان قرار دیا ہے۔ وہاں سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کی نبوت و رسالت پر ایمان بھی ایمان کا جزو قرار دیا ہے۔
لیکن پورے قرآن میں ایک جگہ بھی یہ نہیں فرمایا کہ حضورﷺ کے بعد بھی کسی نئے نبی کی وحی یا نبوت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ نبوت و رسالت حضورﷺ کے تشریف لانے کے بعد منقطع ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔ کیونکہ اگر کسی نئے نبی یا رسول نے آنا ہوتا تو قرآن جیسی جامع کتاب میں اس کا ذکر ضرور موجود ہوتا۔
اب ہم چند آیات آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں جن میں سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام اور ان پر ہونے والی وحی پر ایمان لانے کا ذکر ہے۔ لیکن حضورﷺ کے بعد کسی نئے نبی پر ہونے والی وحی پر یا نئے نبی کی نبوت پر ایمان لانے کا کوئی ذکر اشارتا، کنایتا بھی نہیں ہے۔
آیت نمبر 1
وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ۔
اور(ایمان والے وہ ہیں)جو اس (وحی) پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی ۔اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں۔
(سورۃ البقرۃ آیت نمبر 4)
آیت نمبر 2
لٰکِنِ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ مِنۡہُمۡ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ وَ الۡمُقِیۡمِیۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ الۡمُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ اُولٰٓئِکَ سَنُؤۡتِیۡہِمۡ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ۔
البتہ ان (بنی اسرائیل) میں سے جو لوگ علم میں پکے ہیں اور مومن ہیں وہ اس (کلام) پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو (اے پیغمبر) تم پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا تھا اور قابل تعریف ہیں وہ لوگ جو نماز قائم کرنے والے ہیں ، زکوٰۃ دینے والے ہیں اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم اجر عظیم عطا کریں گے۔
(سورۃ النساء آیت نمبر 162)
آیت نمبر 3
وَ لَقَدۡ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ وَ اِلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ لَئِنۡ اَشۡرَکۡتَ لَیَحۡبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ۔
اور یہ حقیقت ہے کہ تم سے اور تم سے پہلے تمام پیغمبروں سے وحی کے ذریعے یہ بات کہہ دی گئی تھی کہ اگر تم نے شرک کا ارتکاب کیا تو تمہارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے گا ۔ اور تم یقینی طور پر سخت نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہوجاؤ گے۔
(سورۃ الزمر آیت نمبر 65)
آیت نمبر 4
قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ ہَلۡ تَنۡقِمُوۡنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنۡ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَ اَنَّ اَکۡثَرَکُمۡ فٰسِقُوۡنَ۔
تم (ان سے) کہو کہ : اے اہل کتاب ! تمہیں اس کے سوا ہماری کون سی بات بری لگتی ہے کہ ہم اللہ پر اور جو کلام ہم پر اتارا گیا اس پر اور جو پہلے اتارا گیا تھا اس پر ایمان لے آئے ہیں ، جبکہ تم میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں۔
(سورۃ المائدہ آیت نمبر 59)
آیت نمبر 5
کَذٰلِکَ یُوۡحِیۡۤ اِلَیۡکَ وَ اِلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۙ اللّٰہُ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ۔
(اے پیغمبر) اللہ جو عزیز و حکیم ہے ، تم پر اور تم سے پہلے جو (پیغمبر) ہوئے ہیں ، ان پر اسی طرح وحی نازل کرتا ہے۔
(سورۃ الشوری آیت نمبر 3)
ان تمام آیات میں بلکہ پورے قرآن میں حضور ﷺ اور حضور ﷺ سے پہلے نازل ہونے والی وحی کا ہی ذکر ہے۔ حضورﷺ کے بعد کسی نئے نبی پر نازل ہونے والی وحی کا ذکر نہیں۔
عقیدہ ختم نبوت اتنا ضروری اور اہم عقیدہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے عالم ارواح میں، عالم دنیا میں، عالم برزخ میں، عالم آخرت میں، حجتہ الوداع کے موقع پر ،درود شریف میں اور معراج کے موقع پر اس کا تذکرہ کروایا۔
ختم نبوت کورس"
سبق نمبر 2
"عالم ارواح میں عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ "
وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَخَذۡتُمۡ عَلٰی ذٰلِکُمۡ اِصۡرِیۡ ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا ؕ قَالَ فَاشۡہَدُوۡا وَ اَنَا مَعَکُمۡ مِّنَ الشّٰہِدِیۡنَ۔
اور (ان کو وہ وقت یاد دلاؤ) جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں ، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس (کتاب) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے ، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے ، اور ضرور اس کی مدد کرو گے ۔ اللہ نے (ان پیغمبروں سے) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے کہا : تو پھر (ایک دوسرے کے اقرار کے) گواہ بن جاؤ ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں۔
(آل عمران آیت نمبر 81)
اس آیت کریمہ میں بھی حضورﷺ کی آمد کا ذکر ہے کہ اگر وہ آخری نبی کسی دوسرے نبی کے زمانہ نبوت میں آ گئے تو اس نبی کو اپنی نبوت چھوڑ کر نبی آخر الزماںﷺ کی پیروی کرنی پڑے گی ۔ یعنی عالم ارواح میں بھی حضور ﷺ کی ختم نبوت کا تذکرہ ہورہا ہے۔
"عالم دنیا میں عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ"
عالم دنیا میں سب سے پہلے سیدنا آدمؑ پیدا ہوئے لیکن حضورﷺ نے فرمایا کہ
"انی عنداللہ مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طیینتہ"
میں اس وقت بھی (لوح محفوظ میں) آخری نبی لکھا ہوا تھا جب آدمؑ ابھی گارے میں تھے۔
(مشکوۃ حدیث نمبر 5759 ، باب فضائل سید المرسلینﷺ)
(کنزالعمال حدیث نمبر 31960 ٬ باب فی فضائل متفرقة تنبی عن التحدث بالنعم و فیه ذکر ذکر نسبه ﷺ)
اللہ تعالٰی نے دنیا میں جس نبی کو بھی بھیجا اس کے سامنے حضور ﷺ کے آخری نبی ہونے کا ذکر یوں فرمایا ۔
"لم یبعث اللہ نبیا آدم ومن بعدہ الا اخذ اللہ علیہ العھد لئن بعث محمدﷺ وھو حی لیومنن بہ ولینصرنہ "
حق تعالی نے انبیاء کرامؑ میں سے جس کو بھی مبعوث فرمایا تو یہ عہد ان سے ضرور لیا کہ اگر ان کی زندگی میں محمدﷺ تشریف لے آئیں تو وہ ان پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں۔
(تفسیر ابن جریر (عربی) جلد 5 صفحہ 540 تفسیر آیت نمبر 80 سورہ آل عمران طبع مصر 2001ء)
اس کے علاوہ حضورﷺ نے فرمایا کہ
"بین کتفی آدم مکتوب محمد رسول اللہ خاتم النبیین"
آدمؑ کے دونوں کندھوں کے درمیان محمد رسول اللہﷺ آخری نبی لکھا ہوا تھا ۔
(خصائص الکبری جلد 1 صفحہ 19 طبع ممتاز اکیڈمی لاہور )
اس کے علاوہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ
عن ابی ھریرۃ ؓ قال قال رسول اللہﷺ لما نزل آدم بالھند واستوحش فنزل جبرائیل ۔ فنادی باالاذان اللہ اکبر مرتین۔ اشھد ان لا الہ الااللہ مرتین۔ اشھد ان محمد الرسول اللہ مرتین۔ قال آدم من محمد۔ فقال ھو آخر ولدک من الانبیاء ۔
حضرت ابوہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ آدمؑ جب ہند میں نازل ہوئے تو ان کو (بوجہ تنہائی) وحشت ہوئی تو جبرائیلؑ نازل ہوئے اور اذان پڑھی۔ اللہ اکبر 2 بار پڑھا ۔ اشھد ان لا الہ الااللہ 2 بار پڑھا ۔ اشھد ان محمد الرسول اللہ 2 بار پڑھا۔ آدمؑ نے جبرائیلؑ سے پوچھا محمدﷺ کون ہیں تو جبرائیلؑ نے فرمایا کہ انبیاء کرامؑ کی جماعت میں سے آپؑ کے آخری بیٹے ہیں۔
(کنزالعمال حدیث نمبر 32139 ٬ باب فی فضائل متفرقة تنبی عن التحدث بالنعم و فیه ذکر ذکر نسبه ﷺ)
"عالم برزخ یعنی عالم قبر میں عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ"
قبر میں جب فرشتے مردے سے سوال کریں گے کہ تیرا رب کون ہے اور تیرا دین کیا ہے اور تیرے نبی کون سے ہیں۔ تو مردہ جواب دے گا کہ
ربی اللہ وحدہ لاشریک لہ الاسلام دینی محمد نبی وھو خاتم النبیین فیقولان لہ صدقت۔
میرا رب وحدہ لاشریک ہے ۔ میرا دین اسلام ہے ۔ اور محمدﷺ میرے نبی ہیں اور وہ آخری نبی ہیں۔ یہ سن کر فرشتے کہیں گے کہ تو نے سچ کہا ۔
(تفسیر درمنثور (عربی)جلد 14 صفحہ 235 تفسیر سورة الواقعہ آیت نمبر 83 مطبوعہ مصر 2002ء)
(تفسیر درمنثور (اردو ترجمہ) جلد 6 صفحہ 404 تفسیر سورة الواقعہ آیت نمبر 83 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور 2006ء)
"عالم آخرت میں بھی عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ"
"عن ابی ھریرۃ فی حدیث الشفاعتہ فیقول لھم عیسی علیہ السلام ۔۔۔اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا، فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتِمُ الْأَنْبِيَاءِ"
حضرت ابو ھریرۃ ؓ سے ایک طویل روایت میں ذکر کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ۔ جب لوگ حضرت عیسیٰؑ سے قیامت کے روز شفاعت کے لئے عرض کریں گے تو وہ کہیں گے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس جاؤ ۔ لوگ میرے پاس آیئں گے اور کہیں گے اے اللہ کے رسول محمدﷺ آخری نبی۔
(بخاری حدیث نمبر 4712 ٬ کتاب التفسیر٬ باب ذریة من حملنا مع نوح)
لیجئے قیامت کے دن بھی حضورﷺ کی ختم نبوت کا تذکرہ ہوگا۔
"حجتہ الوداع میں ختم نبوت کا تذکرہ"
"عن ابی امامتہ ؓ قال قال رسول اللہﷺ فی خطبتہ یوم حجتہ الوداع ایھاالناس انہ لانبی بعدی ولا امتہ بعدکم"
(حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنے خطبہ حجتہ الوداع میں فرمایا اے لوگو! نہ میرے بعد کوئی نبی ہوگا اور نہ تمہارے بعد کوئی امت ہوگی)
(کنزالعمال حدیث نمبر 12918 ٬ باب حجة الوداع)
خلاصہ
ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ نبیوں کی تعداد حضور ﷺ کے تشریف لانے سے پوری ہوچکی ہے۔ ختم نبوت کا عقیدہ اتنا ضربنوری اور اہم عقیدہ ہےکہ عالم ارواح ہو یا عالم دنیا ،عالم برزخ ہو یا عالم آخرت ، ہر جگہ اللہ تعالٰی نے حضورﷺ کے آخری نبی ہونے کے تذکرے کروائے ہیں۔
مجاہدین ختم نبوت:
"احتساب قادیانیت"
"ختم نبوت کورس"
سبق نمبر 3
"آیت خاتم النبیین کی علمی تحقیقی تفسیر"
قرآن مجید میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں۔
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ۔
( محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں ، اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے )
(سورۃ الاحزاب آیت نمبر 40)
"آیت کا شان نزول "
عرب معاشرے میں یہ قبیح رسم موجود تھی کہ وہ لےپالک بیٹے کو حقیقی بیٹا سمجھتے تھے اور اس لےپالک کو تمام احوال و احکام میں بھی حقیقی بیٹا ہی سمجھتے تھے اور مرنے کے بعد وراثت،حلت و حرمت ،رشتہ ناطہ وغیرہ تمام احکام میں بھی حقیقی بیٹا ہی تصور کرتے تھے ۔
جس طرح نسبی بیٹے کے مرجانے یا طلاق دینے کے بعد باپ کے لئے حقیقی بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے اسی طرح وہ لےپالک بیٹے کی طلاق یافتہ یا بیوہ بیوی سے نکاح کو حرام سمجھتے تھے ۔
اس آیت میں اللہ تعالٰی نے ان کی قبیح رسم کا خاتمہ فرمایا ۔
حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کرکے اپنا بیٹا بنالیا۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین نے بھی ان کو زید بن حارث کی بجائے زید بن محمد کہنا شروع کردیا تھا ۔
حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ کی اپنی بیوی حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے ناچاتی ہوگئی اور انہوں نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی ۔
تو اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ آپ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمالیں۔ تاکہ اس قبیح رسم کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمالیا تو مشرکین نے اعتراض شروع کر دیا کہ آپ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے۔
چنانچہ جواب میں اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمایئں۔ اس ایک فقرے میں ان تمام اعتراضات کی جڑ کاٹ دی گئی ہے جو مخالفین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس نکاح پر کر رہے تھے ۔
ان کا اولین اعتراض یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی شریعت میں بھی بیٹے کی منکوحہ باپ پر حرام ہے ۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ محمّد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، یعنی جس شخص کی مطلقہ سے نکاح کیا گیا ہے وہ بیٹا تھا کب کہ اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہوتا ؟ تم لوگ تو خود جانتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سرے سے کوئی بیٹا ہے ہی نہیں ۔
ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اچھا ، اگر منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہے تب بھی اس کی چھوڑی ہوئی عورت سے نکاح کر لینا زیادہ سے زیادہ بس جائز ہی ہو سکتا تھا ، آخر اس کا کرنا کیا ضرور تھا ۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا مگر وہ اللہ کے رسول ہیں ، یعنی رسول ہونے کی حیثیت سے ان پر یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ جس حلال چیز کو تمہاری رسموں نے خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے اس کے بارے میں تمام تعصبات کا خاتمہ کر دیں اور اس کی حلت کے معاملے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں ۔
پھر مزید تاکید کے لیے فرمایا اور وہ خاتم النبیین ہیں ، یعنی ان کے بعد کوئی رسول تو درکنار کوئی نبی تک آنے والا نہیں ہے کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصلاح ان کے زمانے میں نافذ ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے والا نبی یہ کسر پوری کر دے ، لہٰذا یہ اور بھی ضروری ہو گیا تھا کہ اس رسم جاہلیت کا خاتمہ وہ خود ہی کر کے جائیں ۔
اس کے بعد مزید زور دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں اس رسم جاہلیت کو ختم کرا دینا کیوں ضروری تھا اور ایسا نہ کرنے میں کیا قباحت تھی ۔
وہ جانتا ہے کہ اب اس کی طرف سے کوئی نبی آنے والا نہیں ہے لہٰذا اگر اپنے آخری نبی کے ذریعہ سے اس نے اس رسم کا خاتمہ اب نہ کرایا تو پھر کوئی دوسری ہستی دنیا میں ایسی نہ ہو گی جس کے توڑنے سے یہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے ۔ بعد کے مصلحین اگر اسے توڑیں گے بھی تو ان میں سے کسی کا فعل بھی اپنے پیچھے ایسا دائمی اور عالمگیر اقتدار نہ رکھے گا کہ ہر ملک اور ہر زمانے میں لوگ اس کا اتباع کرنے لگیں ، اور ان میں سے کسی کی شخصیت بھی اپنے اندر اس تقدس کی حامل نہ ہو گی کہ کسی فعل کا محض اس کی سنت ہونا ہی لوگوں کے دلوں سے کراہیت کے ہر تصور کا قلع قمع کر دے ۔
"آیت خاتم النبیین کی تفسیر القرآن بالقرآن"
ختم نبوت کورس"
سبق نمبر 4
"آیت خاتم النبیین کی تفسیر القرآن بالقرآن"
قرآن پاک میں 7 جگہ پر ختم کے مادے سے الفاظ آئے ہیں ۔
1۔
خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ۔
اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے ۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لئے زبردست عذاب ہے ۔
(سورۃ البقرۃ آیت نمبر 7)
2۔
قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَخَذَ اللّٰہُ سَمۡعَکُمۡ وَ اَبۡصَارَکُمۡ وَ خَتَمَ عَلٰی قُلُوۡبِکُمۡ مَّنۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ یَاۡتِیۡکُمۡ بِہٖ ؕ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ ثُمَّ ہُمۡ یَصۡدِفُوۡنَ ۔
( اے پیغمبر ! ان سے ) کہو : ذرا مجھے بتاؤ کہ اگر اللہ تمہاری سننے کی طاقت اور تمہاری آنکھیں تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے ، تو اللہ کے سوا کونسا معبود ہے جو یہ چیزیں تمہیں لاکر دیدے؟ دیکھو ہم کیسے کیسے مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں ، پھر بھی یہ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں ۔
(سورۃ الاعراف آیت نمبر 46)
3۔
اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ وَ اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلۡمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمۡعِہٖ وَ قَلۡبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً ؕ فَمَنۡ یَّہۡدِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اللّٰہِ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ۔
پھر کیا تم نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنا لیا ہے ، اور علم کے باوجود اللہ نے اسے گمراہی میں ڈال دیا ، اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ، اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ۔ اب اللہ کے بعد کون ہے جو اسے راستے پر لائے؟ کیا پھر بھی تم لوگ سبق نہیں لیتے؟
(سورۃ الجاثیہ آیت نمبر 23)
4۔
اَلۡیَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰۤی اَفۡوَاہِہِمۡ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ تَشۡہَدُ اَرۡجُلُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ۔
آج کے دن ہم ان کے منہ پر مہر لگادیں گے ، اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے ، اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ وہ کیا کمائی کیا کرتے تھے ۔
(سورۃ یس آیت نمبر 65)
5۔
اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ۚ فَاِنۡ یَّشَاِ اللّٰہُ یَخۡتِمۡ عَلٰی قَلۡبِکَ ؕ وَ یَمۡحُ اللّٰہُ الۡبَاطِلَ وَ یُحِقُّ الۡحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ۔
بھلا کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ کلام خود گھڑ کر جھوٹ موٹ اللہ کے ذمے لگا دیا ہے ؟ حالانکہ اگر اللہ چاہے تو تمہارے دل پر مہر لگا دے ، اور اللہ تو باطل کو مٹاتا ہے ، اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعے ثابت کرتا ہے ، یقینا وہ سینوں میں چھپی ہوئی باتوں تک کو جانتا ہے ۔
(سورۃ الشوری آیت نمبر 24)
6۔
یُسۡقَوۡنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخۡتُوۡمٍ ۔
انہیں ایسی خالص شراب پلائی جائے گی جس پر مہر لگی ہوگی ۔
(سورۃ المطففین آیت نمبر 25)
7۔
خِتٰمُہٗ مِسۡکٌ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ ۔
اس کی مہر بھی مشک ہی مشک ہوگی ۔ اور یہی وہ چیز ہے جس پر للچانے والوں کو بڑھ چڑھ کر للچانا چاہیے ۔
(سورۃ المطففین آیت نمبر 26)
ان سات جگہ پر معنی میں قدر مشترک یہ ہے کہ اس کا معنی یہ کیا جاتا ہے کہ کسی چیز کو اس طرح بند کرنا کہ اندر والی چیز باہر نہ جاسکے اور باہر والی اندر نہ جاسکے۔
مثلا "ختم اللہ علی قلوبھم" اس کا مطلب یہ ہے کہ کفار کے دلوں پر اللہ نے مہر لگادی ہے۔ اب ایمان ان کے دل میں داخل نہیں ہوسکتا اور کفر ان کے دل سے باہر نہیں جاسکتا۔
اسی طرح ہماری زیر بحث آیت میں بھی "خاتم النبیین" کا مطلب یہ ہے کہ دائرہ نبوت میں جتنے نبی آنے تھے وہ آچکے ۔ اب دائرہ نبوت میں نیا نبی نہیں آسکتا۔ اسی طرح دائرہ نبوت سے کوئی نبی باہر نہیں جاسکتا ۔
تفسیر القرآن بالقرآن کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے نبیوں کی تعداد پوری ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت نیا نبی نہیں آسکتا ۔
"تفسیر "خاتم النبیین " بالحدیث"
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي "
"حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد میری امت میں 30 جھوٹے پیدا ہوں گے ان میں سے ہرایک کہے گا کہ میں نبی ہوں۔ لیکن میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں "
(ترمذی شریف حدیث نمبر 2219)
اس کے علاوہ ایک اور روایت میں فرمایا ۔
"عن أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ، فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ "
"بیشک رسالت اور نبوت ( مجھ پر) منقطع ہوچکی ہے۔ اب میرے بعد نہ کوئی نبی ہے اور نہ کوئی رسول ہے"
(ترمذی شریف حدیث نمبر 2272)
"ختم نبوت کورس"
سبق نمبر 6
وجہ نمبر 4
ایک طرف قادیانی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر سے ایک سے زائد نبی بنیں گے۔ جبکہ دوسری طرف مرزاقادیانی اور قادیانی جماعت کا موقف ہے کہ صرف مرزاقادیانی کو ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع سے نبوت ملی ہے۔
(روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 406 )
مرز
اقادیانی کے بعد خلافت ہے نبوت نہیں۔ تو اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبی ہوئے، خاتم النبیین نہ ہوئے۔ اس لئے خود یہ ترجمہ قادیانیوں کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔
وجہ نمبر 5
اگر خاتم النبیین کا یہ مطلب لیا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے نبوت ملےگی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام سے لےکر حضرت عیسی علیہ السلام تک انبیاء کے خاتم نہیں بلکہ اپنے سے بعد آنے والے نبیوں کے خاتم ہیں۔ اور یہ بات قرآن و حدیث کی منشاء کے خلاف ہے۔
وجہ نمبر 6
یہ معنی محاورات عرب کے بھی بالکل خلاف ہے کیونکہ پھر خاتم القوم اور خاتم المھاجرین کے بھی یہی معنی کرنے پڑیں گے کہ اس کی مہر سے قوم بنتی ہے اور اس کی مہر سے مھاجر بنتے ہیں۔ اور یہ ترجمہ خود قادیانیوں کے نزدیک بھی باطل ہے۔
قادیانیوں کو چیلنج =
اگر کوئی قادیانی قرآن پاک کی کسی ایک آیت سے یا کسی ایک حدیث سے یا کسی صحابی یا تابعی کے قول سے خاتم النبیین کا یہ معنی دکھا دے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر سے یعنی کامل اتباع سے نبی بنتے ہیں تو اس قادیانی کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا ۔ لیکن
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
"ختم نبوت کورس"
سبق نمبر 5
ان روایات سے پتہ چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی خاتم النبیین کی تشریح فرمادی کہ میرے اوپر رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے اور میرے بعد نہ کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ کوئی نیا رسول آئے گا ۔ یعنی نبیوں کی تعداد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے مکمل ہوچکی ہے۔
"خاتم النبیین کی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے تفسیر "
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
"عن قتادہ رضی اللہ عنہ ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین ای آخرھم"
"حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخر میں تشریف لائے"
(درمنثور جلد 5 صفحہ 204)
حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
"عن الحسن فی قولہ و خاتم النبیین قال ختم اللہ النبیین بمحمد وکان آخر من بعث"
"حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے خاتم النبیین کی یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ اللہ تعالٰی نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان نبیوں میں سے آخری ہیں جو اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے"
صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی خاتم النبیین کی تفسیر سے بھی پتہ چلا کہ نبیوں کی تعداد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پوری ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔
"خاتم النبیین اور اصحاب لغت"
آیئے اب لغت سے خاتم النبیین کا معنی متعین کرتے ہیں۔
امام راغب اصفہانی کی لغات القرآن کی کتاب مفردات القرآن کی تعریف امام سیوطی رح نے کی ہے۔ اور امام سیوطی رح قادیانیوں کے نزدیک مجدد بھی ہیں۔ لہذا یہ کتاب قادیانیوں کے نزدیک بھی معتبر ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں۔
"وخاتم النبیین لانہ ختم النبوۃ ای تممھا بمجیئہ"
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کو ختم کردیا۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریف لاکر نبوت کو تمام فرمادیا"
(مفردات راغب صفحہ 142)
class="poetryContent" dir="rtl" style="text-align: right;"> لسان العرب عربی لغت کی مشہور و معروف کتاب ہے۔یہ کتاب عرب و عجم میں مستند سمجھی جاتی ہے۔اس میں خاتم النبیین کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے۔
"خاتمھم و خاتمھم آخرھم عن اللحیانی و محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء علیہ وعلیھم الصلوۃ والسلام "
"خاتم القوم زیر کے ساتھ اور خاتم القوم زبر کے ساتھ ، اس کے معنی آخرالقوم ہیں ۔ اور انہیں معانی پر لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں یعنی آخری نبی ہیں"
یہ تو صرف لغت کی 2 کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے جبکہ لغت کی تقریبا تمام کتابوں میں خاتم النبیین کا یہی مفہوم بیان کیا گیا ہے۔
لیجئے لغت سے بھی خاتم النبیین کا یہی مطلب ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے نبیوں کی تعداد مکمل ہوگئ ہے اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔
"خاتم النبیین کا ترجمہ اور قادیانی جماعت "
معزز قارئین ہم نے آیت خاتم النبیین پر علمی ،تحقیقی گفتگو سے ثابت کیا کہ خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے نبیوں کی تعداد مکمل ہوچکی ہے اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔
اب ہم قادیانی جماعت کے اس آیت کے ترجمے اور مفہوم کا جائزہ لیتے ہیں اور آپ کو بتاتے ہیں کہ قادیانیوں کا ترجمہ کیوں غلط ہے۔
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
" خاتم النبیین کا مطلب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع سے نبی بنیں گے "
(روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 100)
قادیانیوں کے خاتم النبیین کے کئے گئے ترجمے کے غلط ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
وجہ نمبر 1
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"مجھے نبوت تو ماں کے پیٹ میں ہی ملی تھی "
(روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 70)
ایک طرف تو قادیانی کہتے ہیں کہ نبوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے ملتی ہے جبکہ یہاں تو مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ مجھے نبوت ماں کے پیٹ میں ہی ملی تھی۔ اب قارئین خود فیصلہ کریں کہ مرزا قادیانی کی کون سی بات درست ہے۔
وجہ نمبر 2
مرزاقادیانی نے خود خاتم النبیین کا ایک جگہ ترجمہ لکھا ہے کہ
"ختم کرنے والا ہے سب نبیوں کا"
(روحانی خزائن جلد 3 صصفحہ 431)
اگر یہ ترجمہ غلط ہے تو مرزاقادیانی نے یہ ترجمہ کیوں لکھا؟؟
وجہ نمبر 3
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"میرے پیدا ہونے کے بعد میرے والدین کے گھر میں کوئی اور لڑکا یا لڑکی نہیں ہوئی ۔ گویا میں اپنے والدین کے لئے خاتم الاولاد تھا"
(روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 479)
اگر خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر سے نبی بنتے ہیں تو خاتم الاولاد کا بھی یہی مطلب ہونا چاہیے کہ مرزاقادیانی کی مہر سے مرزاقادیانی کے والدین کے گھر میں اولاد پیدا ہوگی۔ کیا قادیانی یہ معنی خاتم الاولاد کا کریں گے؟
یقینا یہ ترجمہ نہیں کریں گے تو پتہ چلا کہ قادیانیوں کا کیا گیا ترجمہ سرے سے ہی باطل ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں