کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسٸلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کی تین بیٹیاں اور ایک بیوی ہے اور وہ شخص اپنی زندگی میں ہی انکے درمیان اپنا کمایہ ہوا مال تقسیم کرنا چاہتا ہے شرعی نقطہ نظر سے اس طرح کرنے کا کیا حکم ہے ؟
*الجواب حامداً ومصلیاً*
واضح رہے کہ اپنی زندگی میں کوٸی شخص اپنے ورثاء میں سے کسی کو جو کچھ دیتا ہے یہ شرعاً ھبہ (گفٹ) ہے یعنی اپنے ورثاء میں سے جسکو جتنا چاہے دے سکتا ہے یعنی صورت مسٸولہ میں زندگی میں لڑکیوں کو برابر حصہ دے کر انہیں قابض ودخیل بنا سکتے ہیں ، اسی طرح جو مناسب ہو وہ بیوی کو دے سکتے ہیں لیکن اگر لڑکیوں اور بیوی کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی آپکے وارث بن رہے ہوں مثلاً بھاٸی بھتیجہ وغیرہ ،تو بہتر ہے کہ آپ بالقصد انہیں اپنی وراثت سے محروم نہ کریں اس لیٸے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ وعن انسؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من قطع میراث وارثہ قطع اللہ میراثہ من الجنة یوم القیمة رواہ ابن ماجہ ورواہ البیھقی فی شعب الایمان عن ابی ھریرة
*(مشکاةالمصابیح / کتاب الوصایا صفحہ نمبر ٢٦٦ رقم الحدیث ٢٩٣٨ مکتبہ حبیبیہ* رشیدیہ) یعنی جو شخص اپنے وارث کی میراث کو کاٹے تو اللہ تعالی قیامت کے روز جنت میں اسکے حصہ میں سے آنے والی میراث کو قطع کریگا -
عن النعمان بن بشیرؓ _وھو علی المنبر - یقول اعطانی ابی عطیة فقالت عمرة بن رواحة لا ارضی حتی تشھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، فقال انی اعطیت ابنی من عمرة بنت رواحة عطیة فامرتنی ان اشھدک یا رسول اللہ قال: اعطیت ساٸر ولدک مثل ھذا قال لا قال فاتقوا اللہ واعدلوا بین اولادکم قال فرجع فرد عطیتہ
*صحیح البخاری ،، کتاب الھبة/ باب الاشھاد فی الھبة جلد نمبر ١ صفحہ ٤٥٤ رقم الحدیث ٢٥٨٧ مکتبة رحمانیة*
واحتجوا ایضا بانہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : اعدلوا بین اولادکم ، او قال سووا بینھم ، وفی روایة قال :اعدلوا بین اولادکم کما تحبون ان تعدلوا بینکم فی البر - *اعلاء السنن / باب استحباب التسویة بین الاولاد فی العطاء ١٦ /١١٧دار الکتب العلمیة بیروت*
*وفی الخلاصة : المختارالتسویة بین الذکر والانثی*
*(البحر الراٸق /کتاب الھبة جلد نمبر ٧ صفحہ ٤٩٠ المکتبة الوحیدیة)* *مستفاد من کتاب النوازل جلد نمبر ١٢ صفحہ ١٨٩ /١٩٠*
*فقط والله اعلم بالصواب*
*کتبہ محمد بلال*
المتخصص دار الافتاء والتحقیق جامع مسجد ہائی اسکول بٹگرام
الجواب صحیح
مفتی سجاد علی شاہ صاحب رفیق دار الافتاء والتحقیق
*الجواب صحیح*
*حضرت مولانا مفتی بخت منیر صاحب مد ظلھم العالیة*
صدر مفتی دار الفتاء والتحقیق جامع مسجد ہائی اسکول بٹگرام ورائیس جامعہ دار السلام بٹگرام
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں