سوال ۲
قال الله تعالى: "ما كان محمد ابا احد من رجالكم ولكن رسول الله وخاتم النبيين ‘‘اس آیت کی توضیح و تشریح ایسے طور سے کر کہ مسئلہ ختم نبوت نکھر کر سامنے آ جائے اور اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں سے پانچ کتابوں کے نام تحریر کریں؟
جواب .... آیت خاتم النبیین کی تفسیر :
ماکان محمد ابا احد من رجالكم ولكن رسول الله وخاتم النبيين وكان الله بكل شئى عليما ۔ “ ( سورۃ احزاب:۴۰) ترجمہ: محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اللہ کا اور مہر سب نبیوں پر اور ہے اللہ سب چیزوں کو جاننے والا ۔
شان نزول:
"و مـا جـعـل ادعيـاء كـم ابـنـاء كـم ذلكم قولكم بـافـواهـكـم و الله يقول الحق و هو يهدي السبيل ادعوهم لاباء هم هو أقسط عند الله " (سورۂ احزاب:۵،۴) ترجمہ اور نہیں کیا تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے ، یہ تمہاری بات ہے اپنے منہ کی اور اللہ کہتا ہے ٹھیک بات اور وہی سمجھاتا ہے راہ پکارولے پالکوں کو ان کے باپ کی طرف نسبت کر کے یہی پورا انصاف ہے اللہ کے یہاں ۔ اصل مدعا تو یہ تھا کہ شرکت نسب اور شرکت وراثت اور احکام حلت وحرمت وغیرہ میں اس کو بیٹا سمجھا جائے لیکن اس خیال کو بالکل باطل کرنے کے لئے حکم دیا کہ متبنی یعنی لے پالک بنانے کی رسم ہی توڑ دی جائے ، چنانچہ اس آیت میں ارشاد ہو گیا کہ لے پالک کو اس کے باپ کے نام سے پکارو۔ نزول وحی سے پہلے آنحضرت ﷺ نے حضرت زید بن ماری کو ( جو کہ آپ کے غلام تھے ) آزاد فرما کر متبنی ( لے پالک بیٹا بنا لیا تھا اور تمام لوگ یہاں تک کہ صحابہ کرام بھی عرب کی قدیم رسم کے مطابق ان کو زید بن محمد کہ کر پکارتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ جب آیت مذکورہ نازل ہوئی اس وقت سے ہم نے اس طریق کو چھوڑ کر ان کو زید بن حارثہ کہنا شروع کیا۔ صحابہ کرام اس آیت کے نازل ہوتے ہی اس رسم قدیم کو خیر باد کہہ چکے تھے لیکن چونکہ کسی رائج شدہ رسم کے خلاف کرنے میں عزہ واقارب اور اپنی قوم وقبیلہ کے ہزاروں طعن وتشنیع کا نشانہ بنا پڑتا ہے ، جس کا تحمل ہر شخص کو دشوار ہے ۔ اس لئے خداوند عالم نے چاہا کہ اس عقیدہ کو اپنے رسول ہی کے ہاتھوں عملا توڑا جائے ، چنانچہ جب حضرت زید نے اپنی بی بی زینب کو باہمی ناچاقی کی وجہ سے طلاق دے دی تو خداوند عالم نے اپنے رسول ﷺ کا نکاح ان سے کر دیا ۔ زوحنکھا۔ تا کہ اس رسم و عقیدہ کا کلی استیصال ہو جائے ۔ چنانچہ ارشاد ہوا: فلما قضى زيد منها وطرأ زوجنكها لكي لا يكون على المؤمنين حرج في ازواج ادعياء هم .... (احزاب:۳۷) ترجمہ: ”پس جبکہ زید زینب سے طلاق دے کر فارغ ہو گئے تو ہم نے ان کا نکاح آپ سے کر دیا، تاکہ مسلمانوں پر اپنے لےپالک کی بیبیوں کے بارے میں کوئی تنگی واقع نہ ہو ۔‘‘ ادھر آپ کا نکاح حضرت زینب سے ہوا ادھر جیسا کہ پہلے ہی خیال تھا، تمام کفار عرب میں شور مچا کہ لو، اس نبی کو دیکھو کہ اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کر بیٹھے ۔ ان لوگوں کے طعنوں اور اعتراضات کے جواب میں آسان سے یہ آیت نازل ہوئی ،لینی : "ماکان محمد ابا احد من رجالكم ولكن رسول الله وخاتم النبيين - (سورۃ احزاب:۴۰)
ترجمہ محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اللہ کا اور مہر سب نبیوں پر ۔
اس آیت میں یہ بتلا دیا گیا کہ آنحضرت ﷺ کسی مرد کے کسی باپ نہیں تو حضرت زید کے نسبی باپ بھی نہ ہوئے ۔ لہذا آپ کا ان کی سابقہ بی بی سے نکاح کر لینا بلاشبہ جائز اور مستحسن ہے، اور اس بارے میں آپ کو مطعون کرنا سراسر نادانی اور حماقت ہے ۔ ان کے دعوے کے رد کے لئے اتنا کہ دینا کافی تھا کہ آپ حضرت زید کے باپ نہیں لیکن خداوند عالم نے ان کے مطاعن کو مبالغہ کے ساتھ ردکر نے اور بے اصل ثابت کرنے کے لئے اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا کہ یہی نہیں کہ آپ زید کے باپ نہیں بلکہ آپ کو کسی مرد کے بھی باپ نہیں ، پس ایک ایسی ذات پر جس کا کوئی بیٹا ہی موجود ہیں یہ الزام لگانا کہ اس نے اپنے بیٹے کی بی بی سے نکاح کر لیا کس قدر ظلم اور کجروی ہے ۔ آپ کے تمام فرزند بچپن ہی میں وفات پاگئے تھے، ان کو مرد کیے جانے کی نوبت ہی نہیں آئی آیت میں’’ رجالکم‘‘ کی قید اسی لئے بڑھائی گئی ہے ۔ بالجملہ اس آیت کے نزول کی غرض آ نحضرت ﷺ سے کفارو منافقین کے اعتراضات کا جواب دیتا اور آپ کی برات اور عظمت شان بیان فرماتا ہے اور یہی آیت کا شان نزول ہے۔اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے:”ولـكـن رسـول الله وخاتم
النبيين۔“ (لیکن رسول ہے اللہ کا اور مہر سب نبیوں پر )
خاتم النبین کی قرآنی تفسیر
اب سب سے پہلے قرآن مجید کی رو سے اس کا ترجمہ وتفسیر کیا جانا چاہئے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ ختم‘‘ کے مادہ کا قرآن مجید میں سات مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ ..... ختـم الله على قلوبهم" ( سورۃ بقره:۷ ) ( مہر کر دی اللہ نے ان کے دلوں پر)....حتم على قلوبكم “(سورۃ انعام:۴۶ ) ( مہر کر دی تمہارے دلوں پر ) 3 خم على مسمعه وقليه " ( سورۂ جائیہ ۲۳) ( مہر کر دی ان کے کان پر اور دل پر) "اليوم نختم على أفواههم" (سورة بین ۲۵ ) ( آن ہم مہر لگا دیں گے ان کے منہ پر) فان يشاء الله يحتم على قلبك" ( سورۃ شوری ۲۴ ) ( سواگر اللہ چاہے مہر کر دے تیرے دل پر) رحیق مختوم ( سورة طفلین (۲۵) ( مہرلگی ہوئی خالص شراب ) ختامه مسك ( سورة مطمین ۲۶۰) ( جس کی مہر جمتی ہے مشک پر ) ان ساتوں مقامات کے اول و آخر ، سیاق و سباق کو دیکھ لیں ختم‘‘ کے مادو کا لفظ جہاں کہیں استعمال ہوا ہے ۔ ان تمام مقامات پر قدر مشترک یہ ہے کہ کسی چیز کوا یسے طور پر بند کرنا ، اس کی ایسی بندش کرنا کہ باہر سے کوئی چیز اس میں داخل نہ ہو سکے، اور اندر سے کوئی چیز اس سے باہر نہ نکالی جاسکے، وہاں پر "ختم" کا لفظ استعمال ہوا ہے، مثلا پہلی آیت کو دیکھیں کہ اللہ تعالی نے ان کافروں کے دلوں پر مہر کر دی ، کیا معنی؟ کہ کفران کے دلوں سے ۔ باہر نہیں نکل سکتا اور باہر سے ایمان ان کے دلوں کے اندر داخل نہیں ہوسکتا۔ فرمایا حتـم الله على قلوبهم “اب زیر بحث آیت خاتم النبین کا اس قرآنی تفسیر کے اعتبار سے ترجمہ کریں تو اس کا معنی ہوگا کہ رحمت دو عالم ﷺ کی آمد پر حق تعالی نے انبیا علیہم السلام کے سلسلہ پر ایسے طور پر بندش کر دی ، بند کر دیا، مہر لگا دی کہ اب کسی نبی کو نہ اس سلسلہ سے نکالا جاسکتا ہے اور نہ کسی نے شخص کو سلسلہ نبوت میں داخل کیا جاسکتا ہے ۔فهو المقصود لیکن قادیانی اس ترجمہ کونہیں مانتے ۔
خاتم النبیین کی نبوی تفسیر :
"عـن ثـوبـان رضي الله عنه قال : قال رسول الله ﷺ انه سيكون في امتى كذابون ثلاثون كلهم يزعم انه نبی و انا خاتم النبيين لا نبی بعدی“ ( ابوداؤ ص ۱۲۷ ج ۲ کتاب الفتن واللفظ له، تر مذی ص ۴۵ ج۲) ترجمہ: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں تیس (30) جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبین ہومیرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔‘‘ ہوں اس حدیث شریف میں آنحضرت ﷺ نے لفظ " خاتم النبین کی تفسیر
لا نبی بعدی‘‘ کے ساتھ خودفر ما دی ہے ۔
اس لئے حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت چند احادیث نقل کرنے کے بعد
آٹھ سطر پرمشتمل ایک نہایت ایمان افروز ارشادفرماتے ہیں۔ چند جملے آپ بھی پڑھ لیجیے۔
و قـد اخـبـر الـلـه تبارك و تعالى في كتابه و رسوله
صلى الله عليه وسلم في السنة المتواترة عنه انه لا نبي بعده ليعلموا ان كل من ادعى هذا المقام بعده فهو كذاب افاك دجال ضال مضل و لو تحرق و شعبد واتى بانواع السحر و الطلاسم (تفسیر ابن کثیر ج۳ص۳۹۲ ) ترجمہ:
اللہ تبارک وتعالی نے اپنی کتاب میں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث متواتر کے ذریعے اس خبر دی کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ آپ علیہ السلام کے بعد جس نے بھی اس مقام (یعنی نبوت ) کا دعویٰ کیا وہ جھوٹاہ بہت بڑا افترا پرزاد مکار اور فریبی خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہوگا اگر چہ وہ خوارق عادات اور شعبدہ بازی دکھائے اور مختلف قسم کے جادو اور طلسماتی کرشموں کا مظاہرہ کریں
خاتم النبیین کی تفسیر صحابہ کرام سے حضرات صحابہ کرام و تابعین کا مسئلہ ختم نبوت سے متعلق کیا موقف تھا۔ خاتم النبیین کا ان کے نزدیک کیا ترجمہ تھا؟ اس کے لئے حضرت مفتی شفیع صاحب کی کتاب ختم نبوت کامل کے تیسرے حصہ کا مطالعہ فرمائیں یہاں پر صرف دو تابعین کرام کی آرا مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔ امام ابو جعفر ابن جریر طبری اپنی عظیم الشان تفسیر میں حضرت قادہ سے خاتم المین کی تفسیر میں روایت فرماتے ہیں: "عن قتادة ولكن رسول الله وخاتم النبيين اى أخرهم - (ابن جر مرس ۱۶ ج ۲۲) ترجمہ: حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت کی تفسیرمیں فرمایا، اور لیکن آپ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخری نبی ہیں ۔ حضرت قتادہ کا یہ قول شیخ جلال الدین سیوطی نے تفسیر در منشور میں عبدالرزاق اور عبد بن حمید اور ابن مند اور ابن ابی حاتم سے بھی نقل کیا ہے ۔ (در منشورص۲۰۳ ج۵) اس قول نے بھی صاف وہی بتلا دیا جو ہم اوپر قرآن عزیز اور احادیث سے نقل کر چکے ہیں کہ خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین ہیں ، کیا اس میں کہیں تشریعی غیرتشریتی اور بروزی و ظلی وغیرہ کی کوئی تفصیل ہے؟ نیز حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرأت ہی آیت مذکور میں : ولـكـن نبينا خاتم النبيين“ ہے ۔ جوخو داسی معنی کی طرف ہدایت کرتی ہے جو بیان کئے گئے اور سیوطی نے درمنشور میں بحوالہ عبد بن حمید حضرت حسن سے نقل کیا ہے: عـن الـحـسـن فـي قـولـه و خاتم النبيين قال ختم الله
النبيين بمحمد ﷺ و كان آخر من بعث۔“ (در منشورص۵۲۰۲)
ترجمہ حضرت حسن سے آیت خاتم النبیین کے بارہ میں یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے تمام انبیاء کومحمد پرختم کر دیا اورآپ ان رسولوں میں سے جو اللہ کی طرف سے مبعوث ہوۓ آخری ٹہرے۔ کیا اس جیسی صراحتوں کے بعد بھی کسی شک یا تاویل کی گنجائش ہے؟ اور پیروزی یا ضلی کی تاویل کی جا سکتی ہے؟ ۔
خاتم النبیین اور اصحاب لغت : خاتم النبین ’’ت‘‘ کی زبر یا ز یر سے ہو قرآن وحدیث کی تصریحات اور صحابہ و تابعین کی تفاسیر اور ائمہ سلف کی شہادتوں سے بھی قطع نظر کر لی جاۓ اور فیصلہ صرف لغت عرب پر رکھ دیا جائے تب بھی لغت عرب یہ فیصلہ دیتی ہے کہ آیت مذکورہ کی پہلی قرات پر دو معنی ہو سکتے ہیں، آخر النبیین اور نبیوں کے ختم کرنے والے اور دوسری قرآت پر ایک معنی ہو سکتے ہیں یعنی آخر النبیین ۔ لیکن اگر حاصل معنی پر غور کیا جائے تو دونوں کا خلاصہ صرف ایک ہی نکلتا ہے اور بہ لحاظ مراد کہا جاسکتا ہے کہ دونوں قراتوں پر آیت کے معنی لغتا یہی ہیں کہ آپ سب انبیا علیہم السلام کے آخر میں ، آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا، جیسا کہ تفسیر روح المعانی‘‘ میں تصریح موجود ہے: ۔
"و الـخـاتـم اسم آلة لما يختم به كالطابع لما يطبع به فمعنـى خـاتـم الـنبيـن الـذي ختم النبيون بـه و مـآ له آخر النبیین“ (روح المعانی ص۳۲ ج ۲۲)
ترجمہ
’’اور خاتم بافت اس آلہ کا نام ہے جس سے مہر لگائی جائے ۔ پس خاتم النبین کے معنی یہ ہوں گے : وہ شخص جس پر انبیا ختم کئے گئے اور اس معنی کا نتیجہ بھی یہی آخر النبیین ہے ۔
اور علامہ احمد معروف بہ ملا جیون صاحب نے اپنی تفسیر احمدی میں اس لفظ کے معنی کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا
المال على كل توحيه هو المعنى الأخر و لذلك فسر صاحـب الـمـدارك قرلة عاصم بالأخر و صاحب البيضاوي كل القرانين بالآخر" ترجمہ اور نتیجہ دونوں صورتوں ( باغ و بالکسر میں ووصرف معنی آخر ہی ہیں اور اسی لئے صاحب تفسیر مدارک نے قرآت عاصم یعنی بالفتح کی تفسیر آخر کے ساتھ کی ہے اور بیناوی نے دونوں قراتوں کی یہی تفسیر کی ہے ۔روح المعانی اور تغییر احمدی کی ان عبارتوں سے یہ بات بالکل روشن ہوگئی کہ لفظ خاتم کے دو معنی آیت میں بن سکتے ہیں ، اور ان دونوں کا خلاصہ اور نتیجہ صرف ایک ہی ہے یعنی آخرالنبیین اور اسی بنا پر بیضاوی نے دونوں قراتوں کے ترجمہ میں کوئی فرق نہیں کیا، بلکہ دونوں صورتوں میں آخر النبیین تفسیر کی ہے۔ خداوند عالم ائمہ لغت کو جزائے خیر عطا فرماۓ کہ انہوں نے صرف اسی پر بس نہیں کی کہ لفظ خاتم کے معنی کو جمع کر دیا، بلکہ تصریحا اس آیت شریفہ کے متعلق جس سے اس وقت ہماری بحث ہے صاف طور پر بتلا دیا کہ تمام معانی میں سے جولفظ خاتم میں اتنا عمل ہیں، اس آیت میں صرف یہی معنی ہو سکتے ہیں کہ آپ سب انبیا کے ختم کرنے والے اور آخری نبی ہیں۔ خدائے علیم وخبیری کو معلوم ہے کہ لغت عرب پر آج تک کتنی کتا میں چھوٹی بڑی اور معتبر و غیر معتبر لکھی گئیں ، اور کہاں کہاں اور کس کسی صورت میں موجود ہیں۔ ہمیں نہان سب کے جمع کرنے کی ضرورت ہے اور نہ یہ کسی بشری طاقت ہے، بلکہ صرف ان چند کتابوں سے جو عرب وعجم میں مسلم الثبوت اور قابل استدلال سمجھی جاتی ہیں مشتے نمونہ از خروارے ہدیہ ناظرین کر کے یہ دکھلانا چاہتے ہیں کہ لفظ خاتم بالفتح اور بالکسر کے معنی ائمہ لغت نے آیت مذکورہ میں کون سے معنی تحر یہ کئے ہیں ۔ (۱) مفردات القرآن به کتاب امام راغب اصفہانی کی وہ جیب تصنیف ہے کہانی نظیر نہیں رکھتی ، خاص قرآن کے الفات کو نہایت مجیب انداز سے بیان فرمایا ہے۔ شیخ جلال الدین سیوطی نے بیان فرمایا ہے کہ لغات قرآن میں اس سے بہتر کتاب آج تک تصنیف نہیں ہوئی ، آیت مذکورہ کے متعلق اس کے الفاظ یہ ہیں:"وحـاتـم الـنبيين لانـه حـتـم الـنـبـودة اى تـمـهـا (مفردات را خب ۱۳۳)ترجمہ: آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ نے نبوت کوختم کر دیا، یعنی آپ نے تشریف لا کر نبوت کو
تمام فرمادیا۔“ (۲) حکم لا بن السیدہ: لغت عرب کی وہ معتمد علیہ کتاب ہے، جس کو علامہ سیوطی نے ان معتبرات میں سے شمار کیا ہے کہ جن پر قرآن کے بارے میں اعتماد کیا جا سکے ۔ اس میں لکھا ہے: وخـاتـم كـل شئى وخاتمته عاقبته وآخره از لسان العرب - ترجمہ:”اور خاتم اور خاتمہ ہرشے کے انجام اور آخر کو کہا جاتا ہے۔“(۳) لسان العرب الفت کی مقبول کتاب ہے۔ عرب و حجم میں مستند مانی جاتی ہے، اس کی عبارت میں ہے:
خاتمهم و خاتمهم : آخرهم عن اللحياني و محمد خاتم الانبيا عليه و عليهم الصلوة و السلام- (لسان العرب ۲۵ طبع بیروت)
ترجمہ: ’’خاتم القوم بالکسر اور خاتم القوم بالفتح کے معنی آخر القوم میں اورانہی معانی پرلیانی سے نقل کیا جاتا ہے، محمدﷺخاتم الانبیا (یعنی آخر النبیین ) ہیں۔‘‘ اس میں بھی بوضاحت اتلایا گیا کہ بالکسر کی قرأت پڑھی جائے یا بالفتح کی صورت میں خاتم النبیین اور خاتم الانبیا کے معنی آخرالنبیین اور آخر الانبیاء ہوں گے ۔لسان العرب کی اس عبارت سے ایک قاعدہ بھی مستفاد ( دال ) ہوتا ہے کہ اگر چہ لفظ خاتم بالفتح اور بالکسر دونوں کے بحیثیت نفس لغت بہت سے معانی ہو سکتے ہیں لیکن جب قوم یا جماعت کی طرف سے اس کی اضافت کی جاتی ہے تو اس کے معنی صرف آخراورختم کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ غالبا اس قاعدہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لفظ خاتم تنہا کر نہیں کیا، بلکہ قوم اور جماعت کی ضمیر کی طرف اضافت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ لغت عرب کے تتبیع( تلاش کرنے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ لفظ خاتم بالکسر یا بالفتح جب کسی قوم یا جماعت کی طرف مضاف ہوتا ہے تو اس کے معنی آخر ہی کے ہوتے ہیں ۔ آیت مذکورہ میں بھی خاتم کی اضافت جماعت نبین‘‘ کی طرف ہے ۔اس لئے اس کے معنی آخرانہیں اور نبیوں کے ختم کرنے والے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتے ،اس قاعدہ کی تائید تاج العروس شرح قاموس سے بھی ہوتی ہے ۔ وہو ہا:
(۴) تاج العروس : شرح قاموس الاعلام الحر بیدی میں احیائی سے نقل کیا ہے: "ومن اسمائه عليه السلام الخاتم والخاتم وهو الذي ختم النبوة بمجيئه“ ترجمہ: اور آنحضرت ﷺ کے اسم مبارکہ میں سے خاتم بالکسر اور خاتم بالفتح بھی ہے اور خاتم وہ شخص ہے جس نے اپنے تشریف لانے سے نبوت کو ختم کر دیا۔ (۵) قاموس والـخـاتـم آخـر الـقـوم كـالـخـاتـم ومنه قوله تعالى وخاتم النبیین ای آخرهم“ ترجمہ:’’ اور خاتم بالکسر اور بالفتح ،قوم میں سب سے آخر کو کہا جاتا ہے اور اسی معنی میں ہے اللہ تعالی کا ارشاد خاتم النبیین یعنی آخرالنبيين ‘‘ اس میں بھی لفظ ’’قوم‘ بڑھا کر قاعدہ مذکورہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ نیز مسئلہ زیر بحث کا بھی نہایت وضاحت کے ساتھ فیصلہ کر دیا ہے۔ لغت عرب کے غیر محدود دفتر میں سے یہ چند اقوال ائمہ لغت بطور’’ مشتے نمونه از خروارے پیش کئے گئے ہیں۔ جن سے انشاء اللہ تعالی ناظرین کو یقین ہو گیا ہوگا کہ از روئے لغت عرب ، آیت مذکورہ میں خاتم النبیین کے معنی آخرانبین کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتے ، اور لفظ خاتم کے معنی آیت میں آخراور ختم کرنے والے کے علاوہ ہرگز مرا نہیں بن
خلاصہ اس آیت مبارکہ میں آپ کے لئے خاتم النبین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، قرآن و سنت صحابہ کرام، تابعین کی تفسیرات کی رو سے اس کا معنی آخری نبی کا ہے، اور اصحاب لغت کی تصنیفات نے ثابت کر دیا ہے کہ خاتم کا لفظ جب جمع کی طرف مضاف ہے تو اس کا معنی سوائے آخری کے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتے ۔ چنانچہ مرزا قادیانی نے بھی خاتم کو جمع کی طرف مضاف کیا ہے، وہاں بھی اس کے معنی آخری کے ہی ہیں ملاحظہ فرمائیے۔ ” میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور کوئی لڑکی یا لڑ کا
نہیں ہوا، اور میں ان کے لئے خاتم الا ولا تھا ۔‘‘ ' (تریاق القلوب ص ۱۵۷ خزائن ص ۴۷۹ ج۱۵)
ختم نبوت کے موضوع پر کتابوں کے نام
اس مقدس موضوع پر اکابرین امت نے بیسیوں کتابیں لکھی ہیں ، ان میں سے دس کتابوں کے نام یہ ہیں ختم نبوت کامل (مولفہ مفتی محمد شفیع صاحب) مسک الختام فی ختم نبوت سید الانامﷺ مشمولہ احتساب قادیانیت جلد دوم
(مؤلف مولانا محمد ادریس )
" عقیدۃ الامۃ فی معنی ختم نبوۃ (مولفہ: علامہ خالد محمود )
...ختم نبوت قرآن وسنت کی روشنی میں‘‘ (مولفہ: مولانا سرفراز خان صفدر )
سے ختم نبوت (مؤلفہ مولا نا حفظ الرحمن سیوہاروی )
مت ختم نبوت علم وقتل کی روشنی میں (مؤلفہ : مولانا محمد افق سندیلوی ) تم نبوت مواد پروفیسر یوسف سلیم چشتی) خاتم انبین (مولف: مولانا محمد انور شاہ کشمیری ترجمہ مولانا محمد یوسف لدھیانوی)
... عالمگیر نبوت (مؤلفہ: مولانا شمس الحق افغانی" ) ..... عقیدۂ ختم نبوت (مولف: مولانا محمد یوسف لدھیانوی ، مندرجہ تحفہ "قادیانیت جلد اول)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں