عقیده دوم.....
خدا تعالی کا کوئی شریک نہیں
عقیده سوم...
خدا تعالی قدیم اور ازلی ہے
نہیں بلکہ سب مخلوق اور حادث میں خداوند ذوالجلال نے اپنی قدرت سے پیدا کیا ہے۔
عقیدۂ چہارم ....
اللہ تعالیٰ حیات اور علم اور قدرت اور ارادہ اور جمع و
صفات کاملہ میں یعنی وہ زندہ اور دانا اور قدرت والا اور اختیار والا ہے جو کچھ کرتا ہے اپنے اختیار کرتا ہے اور علیم ہی سے علم کا کوئی اور اس کے علم سے غالب اور پوشیدہ ہیں اور ہر چیز کی آواز اور ہر کسی کی پکار کوسنتا ہے زمیں میں ہو یا آسمان میں حتیٰ کہ ساتویں زمین پر چیونٹی کے پاؤں کی آواز بھی سنتا ہے اور تمام عالم کی آوازوں کو بیک وقت سنتا ہے ایک آواز دوسری آواز سے اس ساعت میں مزاحم نہیں ہوتی اور بیک وقت تمام عالم کی چیزوں کو دیکھتا ہے کوئی پردہ اور کوئی تاریکی اس کی دید میں حائل نہیں ، اور و متکلم ہے گونگا نہیں اور وہ مکون ہے نئ ایجاد اور تکوین کی صفت اس کو حاصل ہے جس کو چاہتا ہے جلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس کو مارتا ہے عزت دینا اور ذلت دینا سب اس کے ہاتھ میں ہے ۔ حق تعالی کے لئے یہ صفات کاملہ ثابت ہیں اس لئے کہ عالم کی عجیب وغریب صنعت سراپا حکمت اس امر کی واضح دلیل ہے کہ یہ صنعت کسی مردہ اور مجاہل اور غیر مختار کی نہیں ایسی عجیب وغریب صنعت کا صانع تو زندہ
اور عالم اور قادر اور حکیم ہی ہوسکتا ہے۔ نیز یہ صفات کمال ( حیات علم قدرت اراده بصارت سماعت کلام تکوین ) خدا کی مخلوقات میں موجود ہیں اور تمام عقلاء کے نزدیک. یہ صفات کمال ہیں پس اگر خالق میں یہ کمال نہ ہوتا تو حقوق میں کہاں سے آتا ؟ اللہ تعالی نے اپنی ان صفات کاملہ کا نمونہ انسان میں اس لئے پیدا کیا کہ ان کو دیکھ کر اللہ تعالی کی صفات کا نشان پاسکیں اور سمجھیں کہ ہماری یہ صفات کمال خدا کی صفات کمال کا ایک ادنی سا پر تو ہیں ، ورنہ فی الواقع انسان کی صفات اللہ تعالی کی صفات کے ساتھ کسی طرح بھی مشابہ نہیں ہوسکتیں محض اسی مشارکت اورلفظی مناسبت ہے جو بحث سےخارج ہے۔
فائدہ : جانا چاہیے کہ صفات کی دوقسمیں ہیں: ایک صفات ذاتی اور دوسری صفات فعلیہ ۔
تعالی کی ذات کا پاک ہونا ضروری ہے۔ صفات فعلیہ : ان صفات کو کہتے ہیں کہ ذات ان کی ضد کے ساتھ بھی موصوف ہو سکے مگر ان کا تعلق غیر کے ساتھ ہو۔ جیسے مارنا اور جلانا۔ عزت دینا اور ذلت دینا ، رزق دینا اور نہ دینا ایسی صفات کو صفات فعلیہ کہتے ہیں جہاں ذات دونوں ضدین کے ساتھ موصوف ہو سکے ۔ سی صفات فعلیہ صفت تکوین میں داخل ہیں گویا کہ صفت تکوین ان سب کا اجمال ہے اور سی سے اس کی تفصیل ہیں ۔ اگر حق تعالی کو صفت تکوین حاصل نہ ہوتی تو یہ تمام عالم اور اس کی عجیب و غریب صنعتیں ظہور میں نہ آ تیں ۔ باری تعالی کا ارشاد ہے۔ إنما أمره إذا أراد شيئا أن يقول له كن فيكون ) ( سورو یس آیت 82 پاره۲۳)
یعنی وہ جس چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے کلمہ کن سے پیدا کرتا ہے کسی سامان اور اسباب کا
محتاج نہیں ۔ کن سے پیدا کرنے کا نام تکوین ہے۔
عقیده پنجم ....
اللہ تعالی تمام کلیات و جزئیات کا عالم ہے
حق جل شانہ تمام کلیات اور جزئیات کا عالم ہے آسمانوں اور زمینوں کا کوئی ذرہ اس کے احاطہ علم سے باہر نہیں اس لئے کہ جب وہ تمام اشیاء کا پیدا کر نے والا ہے تو ان اشیاء کا عالم بھی ضرور ہوگا ، یہ ناممکن ہے کہ خالق اور صانع کواپنی مخلوقات اور مصنوع کا علم نہ ہو ۔ الا يعلم من خلق وهو اللطيف الخبير ) ( سورة الملک آیت: 14 پارہ29) اور بھلا کیا وہ نہ جائے گا جس نے پیدا کیا ہے اور وہ بار یک بین اور پورا با خبرہے
بعض بد بخت (یعنی فلاسفہ یونان ) ایسے بھی ہیں جوحق تعالی کو جزئیات کا عالم نہیں جانتے اور اپنی بے عقلی سے اس کو کمال سمجھتے ہیں۔ صفت علم
علم حق جل شانہ کی ایک صفت قدیم اور انکشاف بسیط ہے جو تمام اشیاء کے احوال مختلفہ اور متضادہ کو بیک آن محیط ہے آن واحد میں زید کو موجود اور معدوم زندہ اور مردہ بیمار اور تندرست عزیز اور ذلیل وغیرہ وغیرہ تمام کلی اور جزئی احوال کے ساتھ اپنی اپنی اوقات مخصوصہ میں علی وجہ
الا حاطہ جانتا ہے۔ ازل سے ابد تک ایک ہی انکشاف بسیط ہے جس میں ذرہ برابر تغیر کی آمیزش کا امکان نہیں ۔ کمر اور تعدد تعلقات اور متعلقات کے اعتبار سے ہے ۔ جب کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں کلمہ کومختلف قسموں اور احوال متفائر و اور اعتبارات متضادہ کے ساتھ جان سکتا ہے یعنی ایک ہی وقت میں کلمہ کو اسم بھی اور فعل بھی اور حرف بھی اور ثلاثی اور رباعی بھی معرب بھی اور مبنی بھی اور منصرف بھی اور غیر منصرف بھی وغیرہ وغیرہ جان سکتا ہے اور "الكلمة لفظ وضع لمعنى مفرد‘‘ کے آئینہ میں کلمہ کے تمام متضا داور
مختلف اقسام کو ایک ہی وقت میں مفصل طور پر دیکھ سکتا ہے ۔
تو کیا وہ علیم وخبیر انکشاف بسیط اور علم محیط کے آئینہ میں تمام کائنات کو مختلف اور متضاد احوال کے ساتھ بیک وقت مفصل طور پر نہیں دیکھ سکتا ولله المثل الأعلى تقدم اور تاخر جو کچھ بھی ہے وہ معلومات میں ہے اس کو صفت علم بے چون و چگوں ہے اس میں تقدم و تاخر کے احکام جاری نہیں ہوتے وہ ایک انکشاف بسیط ہے جو تمام مخلوقات سے متعلق ہے اور وہ تعلق بھی مجبول الکیفیت ہے ۔
بندوہ سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ تو اپنی صفت علم کے تعلق کی کیفیت بیان کر کہ تیری صفت علم کس طرح معلومات کے ساتھ متعلق ہوتی ہے تو کبھی بھی اس کے بیان پر قادر نہ ہوگا ۔ پس جب بندہ کی صفت علم کا تعلق بھی مجہول الکیفیت ہے تو خداوند ذوالجلال کی صفت علم کا تعلق اگر مجھول الکیفیت ہو تو کیا استبعاد ہے۔
عقیدہ ششم...
حق تعالی جل شانہ قادر مختار ہے ایجاب و اضطرار کی آمیزش سے پاک اور منزہ ہے
حق جل شانہ قادر مختار ہے ۔ ایجاب یعینی اضطراب کی آمیزش سے منزہ اور مبرا ہے۔ امام ربانی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ فلاسفہ یونان نے اپنی سفاہت اور بے خردی سے ایجاب اور اضطرار کو کمال سمجھ کر حق تعالی سے اختیار کی نفی کی ہے اور ان بے وقوفوں نے واجب الوجود کو معطل اور بے کار سمجھا ہے اور حق تعالی سے سوائے ایک مصنوع (یعنی عقل اول ) کے صدور کے قائل نہیں اور تمام حوادث کو عقل فعال کی طرف منسوب کرتے ہیں جن کا وجود سواۓ ان کے وہم کے کہیں ثابت نہیں اور ان کے گمان میں ان کوحق تعالی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں پس ان نادانوں کو چاہئے تھا کہ اضطراب اور اضطرار کے وقت عقل فعال سے التجاء کرتے اور اس سے اپنی حاجتیں مانگتے حق تعالی کی طرف رجوع نہ کرتے کیونکہ اول تو حوادث عالم کا تعلق حق تعالی سے نہیں۔ دوم یہ کہ حق تعالی ان کے گمان میں فاعل مختار نہیں بلکہ فاعل بالایجاب و الاضطرار ہے۔ بلیات کے دفع کرنے کا اس کو اختیار نہیں پس اس کی طرف رجوع کرنے سے کیا فائدہ۔ اس فرق ضالہ ( فلاسفہ ) کی دو چیز یں طرہ امتیاز ہیں ایک احکام منزلہ اور اخبار مرسلہ کی تکذیب اور استہزاء اور عداوت دوسرے اپنے مطالب اور واہیات مقاصد کے ثابت کرنے میں جو تلبیس اور تلمیہ اور خبط اس گروہ کو لاحق ہوا ہے وہ کسی اور گردہ کو لاحق نہیں ہوا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی دعوت جب افلاطون کو پہنچی جوان بدبختوں کا رئیس تھا تو
جواب میں یہ کہا ( نحن قوم مهتدون لا حاجة بنا إلى من يهدينا ) ہم ہدایت یافتہ اورتعلیم یافتہ قوم ہیں ہمیں کسی ھادی اور معلم کی حاجت نہیں ۔ اس بے وقوف کو چاہئے تھا کہ اس شخص کو جا کر دیکھتا کہ جو مردوں کو زندہ کرتا ہے اور مادر زاداندھوں اور کوڑھیوں کو بینا اور تندرست کرتا ہے جو ان کی طور حکمت سے کہیں بالا اور برتر ہے افلاطون کو چاہئے تھا کہ خود حاضر ہو کر عیسیٰ علیہ السلام کے حالات کا مشاہدہ کرتا اور پھر جواب دیتا بن تحقیق اور بن دیکھے ایسا جواب دینا کبرونخوت کی دلیل ہے فلسفہ چوں اکثرش باشدسفه پس کل آں ہم نے باشد که حکم کل حکم اکثر است
عقیدہ ہفتم
اللہ تعالی جس طرح ممکنات کی ذوات کا خالق ہے اسی و آثار کا بھی خالق ہے
طرح ان کی صفات اور کیفیات اور خواص جس طرح تمام ممکنات کیا جواہر اور کیا اعراض اور کیا اجسام اور کیا عقول اور کیا آسمان اور زمین اور کیا افلاک اور کواکب اور کیا عناصر ای قادر مختار کی ایجاد سے عدم کی پوشیدگی سے وجود میں آئی ہیں اسی طرح ان تمام ممکنات کی خواص اور آثار اور صفات اور کیفیات بھی اس قادر مختار کی ایجاد سے ہیں ۔ اگر کوئی بسیط ہے تو اس کی ایجاد سے ہے اور اگر مرکب ہے تو وہ بھی اس کی ایجاد سے ہے اگر کوئی عنصر گرم ہے تو اس کی ایجاد سے گرم ہے اور اگر کوئی عنصر بارد ہے تو اس کی ایجاد سے بارہ ہے جس طرح آگ اور پانی کا وجود اسی کا عطیہ ہے اسی طرح آگ کی حرارت اور پانی کی برودت بھی اس کی پیدا کی ہوئی ہے کوئی شے خود بخو دگرم اور سرد نہیں ۔ غرض یہ کہ ہرممکن کی ذات اور صفات اور اس کے تمام خواص اور کیفیات اس کی ایجاد سے موجود ہوتے ہیں حق جل شانہ جس طرح ممکنات کے وجود کا مالک ہے کہ جب چاہے ان کے وجود کو سلب کر لے مثلا اپنے کسی برگزیدہ بندو کے لئے آگ کی حرارت سلب کر کے اس کو بر دو سلام بنادے اس لئے کہ جس طرح آگ کا وجوداس کی ایجاد سے ہے اسی طرح آگ کی حرارت بھی اس کی پیدا کی ہوئی ہے وجود کی طرح اس کی صفت اور خاصیت کو بھی سلب کر لینے کا اس کو اختیار ہے۔ ہر چیز کی خاصیت اور اس کی خاص استعداد سب کچھ کا پیدا کیا ہوا ہے یہ ہیں کہ اللہ تعالی نے فقط آگ کو پیدا کر دیا اور جلانے کی خاصیت آگ میں خود بخود آ گئی بلکہ وہ بھی اس کے پیدا کرنے ۔ آئی۔ یہ نہیں کہ اللہ تعالی نے فقط انسان کو پیدا کر دیا اور ادراک اور شعور بھی اللہ ہی کا پیدا کیا ہوا ہے وجود کی طرح انسان کا شعور اور ادراک بھی اللہ کے ارادہ اور مشیت کے تابع ہے جتنا وہ چاہتا ہے فقط اتنا ہی اس کو ادراک ہوتا ہے نہ کم اور نہ زائد ای طرح آگ کی حرارت بھی اللہ تعالی کے ارادہ اور مشیت کے تابع ہے اللہ تعالی کا اگر ارادہ ہو گا تو آگ جلے گی ورنہ نہیں جس طرح تمام ممکنات اور ان کی تمام صفات اپنے وجود میں حق تعالی کی محتاج ہیں اسی طرح اپنے بقا میں بھی اس کی محتاج ہیں ذات ہو یا صفت حقیقت ہو یا خاصیت ان سب کا وجود اور بقاء اس کی مشیت اور ارادہ کے تابع ہے جب تک چاہے گا اس وقت تک وہ ذات یا ووصفت اور خاصیت باقی رہے گی اور جب چاہے گا تو اس ذات یا اس صفت اور خاصیت کو سلب کر لے گا اس نے اسباب اور مسببات کو پیدا کیا اور اسی نے اسباب میں سیت پیدا کی سبب خود بخودنہیں بن گیا۔ جس طرح عقل مند جمادگی سے کوئی فعل صادر ہوتا دیکھ کر اس کے فائل اور محرک کا سراغ لگا لیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ینعل جہاد کے مناسب نہیں بلکہ اس کے سوا کھی اور فاعل کا فعل ہے جس کی ایجاد اور تاثیر سے یہ ر سے یہ فعل اس جماد سے ظاہر ہو رہا ہے اور یہ جماداس فاعل حقیقی کا روپوش ہے اسی طرح اہل فہم اور اہل دانش اسباب و وسائل کے آثار کو دیکھ کر مجھے جاتے ہیں کہ یفعل اور اثر ان اسباب و وسائل کانہیں بلکہ کسی اور فاعل حقیقی کا فعل ہے اور یہ اسباب و وسائل اس فاعل حقیقی کے روپوش ہیں اور اس کے وجود پنہانی کی دلیل ہیں یہ نادان اپنی کمال نارانی اور بے وقوفی کے باعث اس جہاد کو فاعل حقیقی بجھتا ہے اور اصل فاعل حقیقی کا کافر اور منکر بنتا ہے۔ عقیده مخداتعالی خالق خیر بھی ہے اور خالق شریعی ہے حق تعالی شانہ خالق خیر بھی ہیں اور خالق شربھی ، وہ خیر شر دونوں ہی کا پیدا کرنے والا ہے لیکن خیر سے راضی ہے اور شر سے راضی نہیں ، اور اور علمت طہارت اور نجاست ۔ ملائکہ (فرشتے) اور شیاطین نیک اور بد سب اس کے پیدا کئے ہوئے ہیں مگر نیکوں سے راضی ہے اور ہدوں سے ناراض ارادہ اور رضا کے درمیان یہ بڑا دقیق فرق ہے جس کی طرف اللہ تعالی نے اہل سنت والجماعت کو ہدایت فرمائی۔ باقی دوسرے فرقے اس فرق کی طرف ہدایت نہ پانے کی وجہ سے گمراہ ہوئے۔ عقید نم....اللہ تعالی بندوں کے افعال کا بھی خالق ہے حق تعالی شانہ جس طرح بندوں کی ذوات کا خالق ہے اسی طرح ان کے اخلاق اور عادات اور صفات اور کا بھی خالق ہے۔ وہ افعال خواہ خیر ہوں شرسب اس تقدیر اور علم اور ارادہ مشیت سے ہیں۔ لیکن خیر سے وہ راضی ہے شر سے راضی نہیں لیکن یاد رکھنا چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے فقط شرکونق تعالی کی طرف منسوب کرنا خلاف ادب ہے۔ تعالی خالق شرکہنا ہرگز مناسب نہیں ہے بلکہ خالق و شر کہنا مناسب ہے۔ حق تعالی کو خالق کل شی“ کہنا چاہئے اور خالق القاذورات اور خالق مر( نجاستوں اور خنزیروں پیدا کرنے والا ہرگز ہرگز نہ چاہئے حق تعالی کی پاک جناب ایسا کہتا ہے نی گستاخی ہے۔ خلاصہ کہ جس طرح بندے حق تعالی مخلوق میں طرح بندوں کے افعال بھی حق کی تلوق ۔ البتہ بندے کے بعض افعال اختیاری میں خدا داد ارادہ اور اختیار سے صادر ہوتے ہیں بعض افعال اضطراری ہیں جن میں بندے ارادہ اختیار خواہش اور کو نہیں ہوتا رعشہ کا ہاتھ بخو دحرکت کرتا ہے اس حرکت میں متحرک تصور اور شوق اور اور خواہش کو کوئی دخل نہیں اس لئے اس حرکت فل اضطراری کہیں گے اور جونعل تصور اور طبعی شوق و رغبت یا طبیعی نفرت اور کراہت کے بعد صادر ہو۔ اس کوفعل اختیاری کہتے ہیں جیسے محبت میں مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھانا اور غصہ کی حالت میں کسی کے مارنے کے لئے ہاتھ اٹھانا۔ بی اختیاری فعل ہے۔ جس طرح بندہ خدا کی دی ہوئی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور خدا کے دیئے ہوئے کانوں سے سنتا ہے اسی طرح خدا کی دی ہوئی قدرت اور اختیار سے کچھ کام کرتا ہے۔ یہ تمام افعال اگر چہ خدا تعالی کے تخلوق میں اور اس کی قدرت اور ارادہ سے سرزد ہوتے ہیں لیکن چونکہ یہ افعال اختیاری میں اس لئے بندہ اپنے اختیار سے جو نیک کام کرے گا اس پر اجر وثواب پاۓ گا ، اور جو برا کام کرے گا اس پر اس کو سزا ملے گی۔ معتزلہ اور قدر یہ خود بندہ کو اپنے افعال کا خالق اور موجد اور فاعل مستقل بتاتے ہیں۔ اور جبر یہ کہتے ہیں کہ بندہ میں نہ قدرت ہے اور نہ قصد اور اختیار ہے بندہ کی حرکات اور سکنات شجر اور حجر کی حرکات وسکنات کی طرح میں ان کا گمان یہ ہے کہ بندوں کو خیر پر ثواب تو ملے گا مگر برے افعال پر کوئی مواخذہ اور عذاب نہ ہوگا ۔ اور کافر اور عاصی سب معذور ہیں ان سے کچھ نہیں پوچھا جائے گا۔ اہل سنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں قدر میں اور معتزلہ کی بات تو اس لئے غلط ہے کہ بندہ میں خالق بننے کی صلاحیت ہی نہیں ممکن اور حادث کا خالق اور فاعل مستقل بنا ناممکن اور محال ہے نیز خدائے وحدہ لاشریک لہ کی ذات اس سے منزہ ہے کہ اس کی خالقیت میں کوئی اس کا شریک ہو اور وہ اکیلا پیدا کرنے سے عاجز ہو۔ كما قال تعالى: ( أم جعلوا لله شركاء خلفوا كخلفه فتشابه الخلق عليهم قل الله خالق كل شيء وهو الواحد القهار ) ( سورة الرعد : آیت ۱۲ پاره ۱۹) یا انہوں نے اللہ کے ایسے شریک قرار دے رکھے ہیں کہ انہوں نے بھی (کسی چیز کو پیدا کیا ہو جیسا خدا پیدا کرتا ہے پھر ان کو پیدا کرنا ایک سا معلوم ہوا ہو آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی واحد غالب ہے۔“ انسان کی مجبوری کا تو یہ عالم ہے کہ میم کا تلفظ حلق سے اور ٹین کا تلفظ نشتین سے نہیں کر سکتا تو پھر اس پر ظاہر کے ساتھ اپنے افعال کے خالق ہونے کا کیسے مدی بن گیا ؟ اور جبر ہو کی بات اس لئے غلط ہے کہ ہداہت عقل اور بداہت حس کے خلاف ہے اس لئے کہ تمام عقلاء اس بات پر متفق ہیں کہ افعال کی دو قسمیں ہیں، اختیاری اور غیر اختیاری اور اس پر بھی متفق ہیں کہ جو اپنے القیار سے اچھا کام کرے گا اس کو انعام ملے گا اور جو اپنے اختیار سے برا کام کرے گا اس کو سزا ملے گی ۔ فرقہ جبر یہ اس تقسیم کا منکر ہے کہ اس کے نزدیک تمام افعال اضطراری میں کوئی فعل اختیار نہیں۔ حکومت کے وفاداروں اور جان بازوں اور سرفروشوں کو انعام ملے گا اور حکومت کے باغیوں کو پھانسی یا جس دوام کی سزا ملے گی اور چوروں اور بد کار لوگوں کو چند روز و جیل خانہ بھگتنا پڑے گا اگر افعال اختیار یہ پر دنیا میں کوئی جزاء وسزا مرتب نہ ہوا کرے تو کار خانہ عالم در هم و برہم ہو جاۓ ۔ پس اگر دنیا کی مجازی حکومت کی اطاعت اور معصیت پر جزا وسزا کا ترحب میں حکمت اور عین معدلت ہے تو احکم الحاکمین کی اطاعت اور معصیت پر جزا اور سزاء کے ترتیب میں کیوں اشکال ہے؟ اگر کوئی چور چوری کر کے پکڑا جاۓ اور کہنے لگے کہ میں تو مجبور بھی ہوں مجھ کو کیوں سزا دیتے ہیں تو اس عذر لنگ کا جواب میں ملے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو کہ میں مجبور محض تھا اگر مجبور ہوتے تو گھر سے باہر نہ نکلتے ۔ اندھیری رات میں نکل کر کسی کے مکان کا قفل توڑنا یا درواز و اکھاڑنا یا نقب لگانا کیا سیکسی مجبور اور عاجز کا کام ہے؟ بندہ اگر مجازی حکومت کے احکام کا مکلف ہو سکتا ہے تو حاکم حقیقی کے احکام شریعت کا مکلف کیوں نہیں ہو سکتا ؟ اہل سنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں راہیں تو غلط میں یعنی التیار مستقل اور جہر محض کا دعوی عقل اور نقل کے خلاف ہے ۔ صراط مستقیم وہ راستہ ہے کو جو اس افراط اور تفریط کے درمیان ہے وہ یہ کہ بندہ نہ تو مجبور کش ہے اور نہ فاعل مستقل ہے بلکہ جبر اور قدر کے بین بین ہے اور عقلا بھی یہی حق ہے اس لئے کہ جب یہ کا قول کہ بندہ مجبور کش ہے اور قصد اور اختیار سے ماری ہے بداہت اور مشاہدہ کے خلاف ہے کون نہیں جانتا کہ انسان میں اختیار اور ارادہ کی صفت موجود ہے۔ ہرخص جانتا ہے کہ میری حرکات و سکنات پتھر کی حرکات و سکنات کی مانند نہیں۔ پتھر کی حرکت بلا التیار ہے اور میری آمد ورفت اختیار سے ہے جب میں ثابت ہو گیا کہ بندو میں اراد اور اختیار ہے تو اب اس میں دو احتمال ہیں کہ بندہ کا ارادہ اور اعتبار بالکل مستقل ہے اور اس درجہ مستقل ہے کہ انسان کے کلر اور ایمان میں اللہ تعالی کے ارادہ اور محبت کا کوئی مل ہیں۔ یہ مذہب قدر یہ کا ہے دوسرا احتمال یہ ہے کہ بندو میں ارادہ اور اختیار تو ہے مگر وہ اختیار مستقل نہیں بلکہ اللہ کے ارادہ اور اس کے اختیار اور اس کی محبت کے ماتحت ہے ہے مذہب اہل سنت کا ہے اور حقان واسلام میں حق ہے اس لئے کہ بندہ میں ایسے اختیار مستقل کا ہوتا محال ہے کہ جو خدا تعالی کے ماقت نہ ہو ۔ جب بندہ کا وجود اور اس کے تمام اخلاق اور صفات ہی مستقل نہیں بلکہ سب اللہ کی قدرت اور مشیت کے ماتحت ہیں تو ہندو کی صفت قدرت و اختیار کہاں سے منتقل ہو سکتی ہے۔ قال تعالى: ( وما تشاءون إلا أن يشاء الله رب العلمين ) ( سوره تکویر: آیت ۲۹، پارو۳۰) یعنی تم کسی چیز کا ارادہ اور خواہش نہیں کر سکتے جب تک اللہ رب العالمین کی مشیت نہ ہو ۔ معلوم ہوا کہ بندہ میں مشیت اور ارادہ ہے مگر اللہ تعالی کی مشیت اور ارادہ کے ماتحت ہے اس وجہ سے اہل سنت کہتے ہیں کہ انسان جبر اور اختیار کے درمیان میں ہے۔ ”من وجہ مختار ہے، اس لئے کہ افعال کو اختیار اور ارادہ سے کرتا ہے مجبور بھی نہیں مگر اس اختیار سے سنتا اور دیکھتا ہے مگر جمع اور بھر اس کی اختیاری نہیں اسی طرح انسان اپنے افعال میں مختار ہے مگر اس القیار میں مقارنہیں بلکہ مجبور ہے بندہ اس خدا داد التیار سے جو مل کرتا ہے اس کو اصطلاح شریعت میں کب کہتے ہیں۔ افعال کا خالق اور موجد حق تعالی ہے اور بندہ اپنے افعال کا کاسب اور فاعل اور عامل ہے اور جزاء وسزا کے مرتب ہونے کے لئے یہی کب کافی ہے اور ضعیف کے لئے اختیار ضعیف ہی مناسب ہے اختیار مستقل اور کامل تو خالق کے مناسب ہے تلوق کے مناسب نہیں۔ قدر یہ اور اہل سنت میں بس یہی فرق ہے کہ قدریہ بندہ کے لئے التیار مستقل ثابت کرتے ہیں اور ہم اہل سنت غیر مستقل اختیار ثابت کرتے ہیں اور جرمش اور اختیار مستقل کے در میان امر متوسط اور امر معتدل ہی اختیار غیر مستقل ہے جس کو اصطلاح شربیت میں کسب اور عمل کہتے ہیں ۔ اور کب اور عمل کو بندہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ قرآن کریم میں من تعالی نے ہر جگہ خلق کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ واللہ خلقکم وما تعملون" اس آیت میں اللہ تعالی نے علق کو اپنی طرف اور عمل کو بندوں کی طرف منسوب فرمایا اس میں شک نہیں کہ بندہ کا ہر فعل اللہ کے علم اور ارادہ سے صادر ہوتا ہے لیکن اللہ تعالی نے بندو کو بھی کچھ اختیار اور قدرت کی صفت عطا کی ہے جس سے بندہ اپنے ارادہ اور اختیار سے مل کر سکے جس طرح دنیا میں ہندو کے اختیاری فعل پر جزا و سزا کا ملناحق ہے اسی طرح آخرت میں جزاوسزا کا ملنا بھی حق ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں