عقیده ہشتم...
خداتعالی خالق خیر بھی ہے اور خالق شر بھی ہے حق تعالی شانہ خالق خیر بھی ہیں اور خالق شربھی ، وہ خیر و شر دونوں ہی کا پیدا کرنے والا ہے لیکن خیر سے راضی ہے اور شر سے راضی نہیں ، نور اور ظلمت طہارت اور نجاست ۔ ملائکہ (فرشتے) اور شیاطین نیک اور بد سب اس کے پیدا کئے ہوئے ہیں مگر نیکوں سے راضی ہے اور بدوں سے ناراض ۔ ارادہ اور رضا کے درمیان یہ بڑا دقیق فرق ہے جس کی طرف اللہ تعالی نے اہل سنت والجماعت کو ہدایت فرمائی۔ باقی دوسرے فرقے اس فرق کی طرف ہدایت نہ پانے کی وجہ سے گمراہ ہوئے ۔
عقیده ہشتم...
الہ تعالی بندوں کے افعال کا بھی خالق ہے حق تعالی شانہ جس طرح بندوں کی ذوات کا خالق ہے اسی طرح ان کے اخلاق اور عادات اور صفات اور افعال کا بھی خالق ہے۔ وہ افعال خواہ خیر ہوں یا شر سب اس کی تقدیر اور علم اور ارادہ اور مشیت سے ہیں۔ لیکن خیر سے وہ راضی ہے اور شر سے راضی نہیں لیکن یادرکھنا چاہئے ۔ اور خوب یاد رکھنا چاہئے کہ فقط شرکو حق تعالی کی طرف منسوب کرنا خلاف ادب ہے۔ حق تعالی کو خالق شر کہنا ہرگز مناسب نہیں ہے بلکہ خالق خیر و شر کہنا مناسب ہے۔ حق تعالی کو "خالق كل شئ کہنا چاہئے اور خالق القاذورات اور خالق الخنازیر ( نجاستوں اور خنزیروں کا پیدا کرنے والا) ہرگز ہرگز نہ کہنا چاہئے ۔ حق تعالی کی پاک جناب میں ایسا لفظ کہنا بے ادبی اور گستاخی ہے۔ خلاصہ یہ کہ جس طرح بندے حق تعالی کی مخلوق ہیں اسی طرح بندوں کے افعال بھی حق تعالی کی مخلوق ہیں ۔ البتہ بندے کے بعض افعال اختیاری ہیں جو خدا داد ارادہ اور اختیار سے صادر ہوتے ہیں اور بعض افعال اضطراری ہیں جن میں بندے کے ارادہ اور اختیار اور خواہش اور رغبت کو دخل نہیں ہوتا جیسے رعشہ والے کا ہاتھ خود بخو دحرکت کرتا ہے اس حرکت میں متحرک کے تصور اور شوق اور رغبت اور خواہش کو کوئی دخل نہیں اس لئے اس حرکت کوفعل اضطراری کہیں گے اور جو نعل تصور اور طبعی شوق و رغبت یا طبعی نفرت اور کراہت کے بعد صادر ہو۔ اس کو فعل اختیاری کہتے ہیں جیسے محبت میں مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھانا اور غصہ کی حالت میں کسی کے مارنے کے لئے ہاتھ اٹھانا۔ بی اختیاری فعل ہے۔جس طرح بندہ خدا کی دی ہوئی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور خدا کے دیئے ہوئے کانوں سے سنتا ہے اسی طرح خدا کی دی ہوئی قدرت اور اختیار سے کچھ کام کرتا ہے۔ یہ تمام افعال اگر چہ خدا تعالی کے مخلوق ہیں اور اس کی قدرت اور ارادہ سے سرزد ہوتے ہیں لیکن چونکہ میں افعال اختیاری ہیں اس لئے بندہ اپنے اختیار سے جو نیک کام کرے گا اس پر اجر وثواب پائے گا، اور جو برا کام کرے گا اس پر اس کو سزا ملے گی۔معتزلہ اور قدر یہ خود بندہ کو اپنے افعال کا خالق اور موجد اور فاعل مستقل بتاتے ہیں۔ اور جبر یہ کہتے ہیں کہ بندہ میں نہ قدرت ہے اور نہ قصد اور اختیار ہے بندہ کی حرکات اور سکنات شجر اور حجر کی حرکات وسکنات کی طرح ہیں ان کا گمان یہ ہے کہ بندوں کو خیر پر ثواب تو ملے گا مگر برے افعال پر کوئی مواخذہ اور عذاب نہ ہوگا ۔ اور کافر اور عاصی سب معذور ہیں ان سے کچھ نہیں پوچھا جاۓ گا۔ اہل سنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں قدر یہ اور معتزلہ کی بات تو اس لئے غلط ہے کہ بندہ میں خالق بننے کی صلاحیت ہی نہیں ممکن اور حادث کا خالق اور فاعل مستقل بنا ناممکن اور محال ہے نیز خدائے وحدہ لاشریک لہ کی ذات اس سے منزہ ہے کہ اس کی خالقیت میں کوئی اس کا شریک ہو اور وہ اکیلا پیدا کرنے سے عاجز ہو۔ كما قال تعالى: ( أم جعلوا لله شركاء خلقوا كخلقه فتشابة الخلق عليهم قل الله خالق كل شيء و هو الواحد القهار ) (سورۃ الرعد : آیت ۱۶ پار۱۹۰) یا انہوں نے اللہ کے ایسے شریک قرار دے رکھے ہیں کہ انہوں نے بھی (کسی چیز کو) پیدا کیا ہو جیسا خدا پیدا کرتا ہے پھر ان کو پیدا کرنا ایک سا معلوم ہوا ہو آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی واحد غالب ہے۔“ انسان کی مجبوری کا تو یہ عالم ہے کہ میم کا تلفظ حلق سے اور مین کا تلفظ تین سے نہیں کر سکتا تو پھر اس بجز ظاہر کے ساتھ اپنے افعال کے خالق ہونے کا کیسے مدعی بن گیا ؟ اور جبریہ کی بات اس لئے غلط ہے کہ بداہت عقل اور بداہت حس کے خلاف ہے اس لئے کہ تمام عقلاء اس بات پر متفق ہیں کہ افعال کی دوقسمیں ہیں، اختیاری اور غیر اختیاری اور اس پر بھی متفق ہیں کہ جو اپنے اختیار سے اچھا کام کرے گا اس کو انعام ملے گا اور جو اپنے اختیار سے برا کام کرے گا اس کو سزا ملے گی۔ فرقہ جبر یہ اس تقسیم کا منکر ہے کہ اس کے نزدیک تمام افعال استطراری میں کوئی فعل اختیار نہیں۔حکومت کے وفاداروں اور جان بازوں اور سرفروشوں کو انعام ملے گا اور حکومت کے باغیوں کو پھانسی یا حبس دوام کی سزا ملے گی اور اور چوروں اور بد کارلوگوں کو چند روزہ جیل خانہ بھگتنا پڑے گا اگر افعال اختیار میہ پر دنیا میں کوئی جزاء وسزا مرتب نہ ہوا کرے تو کارخانہ عالم درہم و برہم ہو جائے ۔ پس اگر دنیا کی مجازی حکومت کی اطاعت اور معصیت پر جزا وسزا کا ترتب میں حکمت اور عین معدلت ہے تو احکم الحاکمین کی اطاعت اور معصیت پر جزاء اور سزاء کے ترتیب میں کیوں اشکال ہے ؟ اگر کوئی چور چوری کر کے پکڑا جاۓ اور کہنے لگے کہ میں تو مجبور محض ہوں مجھ کو کیوں سزا دیتے ہیں تو اس عذر لنگ کا جواب میں ملے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو کہ میں جو محض تھا اگر مجبور ہوتے تو گھر سے باہر ہی نہ نکلتے ۔ اندھیری رات میں نکل کر کسی کے مکان کاقل تو نا یا درواز ہ اکھاڑ نا یا تب لگانا کیا سیکسی مجبور اور عاجز کا کام ہے؟ بندہ اگر مجازی حکومت کے احکام کا مکلف ہو سکتا ہے تو حاکم حقیقی کے احکام شریعت کا مکلف کیوں نہیں ہوسکتا؟
اہل سنت والجماعت
یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں راہیں تو غلط میں لینی اختیار مستقل اور جبر محض کا دعوی عقل اور نقل کے خلاف ہے۔ صراط مستقیم وہ راستہ ہے کو جو اس افراط اور تفریط کے درمیان ہے وہ یہ کہ بندہ نہ تو جو محض ہے اور نہ فاعل مستقل ہے بلکہ جبر اور قدر کے بین بین ہے اور عقلا بھی یہی حق ہے اس لئے کہ جبر ی کا قول کہ بندہ مجبورش ہے اور قصد اور اختیار سے عاری ہے بداہت اور مشاہدہ کے خلاف ہے کون نہیں جانتا کہ انسان میں اختیار اور ارادہ کی صفت موجود ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ میری حرکات و سکنات پتھر کی حرکات وسکنات کی مانند نہیں ۔ پھر کی حرکت با اختیار ہے اور میری آمد ورفت اختیار سے ہے جب میں ثابت ہو گیا کہ بندہ میں ارادہ اور اختیار ہے تو اب اس میں دو احتمال ہیں کہ بندہ کا ارادہ اور اختیار بالکل مستقل ہے اور اس درجہ مستقل ہے کہ انسان کے کفر اور ایمان میں اللہ تعالی کے ارادہ اور مشیت کا کوئی نہیں۔ یہ مذہب قدریہ کا ہے دوسرا احتمال یہ ہے کہ بندہ میں ارادہ اور اختیار تو ہے مگر وہ اختیار مستقل نہیں بلکہ اللہ کے ارادہ اور اس کے اختیار اور اس کی مشیت کے ماتحت ہے یہ مذہب اہل سنت کا ہے اور عقلا ونقلا یہی حق ہے اس لئے کہ بندہ میں ایسے اختیار مستقل کا ہونا محال ہے کہ جو خدا تعالی کے ماتحت نہ ہو۔ جب بندہ کا وجود اور اس کے تمام اخلاق اور صفات ہی مستقل نہیں بلکہ سب اللہ کی قدرت اور مشیت کے ماتحت ہیں تو بندہ کی صفت قدرت و اختیار کہاں سے مستقل ہوسکتی ہے۔ قال تعالى: ( وما تشاءون إلا أن يشاء الله رب العلمين ) سورہ تکویر: آیت ۲۹پاره۳۰) " یعنی تم کسی چیز کا ارادہ اور خواہش نہیں کر سکتے جب تک اللہ رب العالمین کی مشیت نہ ہو۔“ معلوم ہوا کہ بندہ میں مشیت اور ارادہ ہے مگر اللہ تعالی کی مشیت اور ارادہ کے ماتحت ہے اسی وجہ سے اہل سنت کہتے ہیں کہ انسان جبر اور اختیار کے درمیان میں ہے۔ ”من وجہ“ مختار ہے، اس لئے کہ افعال کو اختیار اور ارادہ سے کرتا ہے محض نہیں مگر اس اختیار سنتا اور دیکھتا ہے مگر جمع اور بھر اس کی اختیاری نہیں اسی طرح انسان اپنے افعال میں مختار ہے مگر اس اختیار میں عقار نہیں بلکہ مجبور ہے بندہ اس خدا داد اختیار سے فعل کرتا ہے اس کو اصطلاح شریعت میں کسب کہتے ہیں۔ افعال کا خالق اور موجد حق تعالی ہے اور بندہ اپنے افعال کا کاسب اور فاعل اور عامل ہے اور جزاء وسزا کے مرتب ہونے کے لئے یہی کسب کافی ہے اور ضعیف کے لئے اختیار ضعیف ہی مناسب ہے اختیار مستقل اور کامل تو خالق کے مناسب ہے مخلوق کے مناسب نہیں قدر یہ اور اہل سنت میں بس یہی فرق ہے کہ قدر یہ بندہ کے لئے اختیار مستقل ثابت کرتے ہیں اور ہم اہل سنت غیر مستقل اختیار ثابت کرتے ہیں اور محض اور اختیار مستقل کے میان امر متوسط اور امر معتدل یہی اختیار غیر مستقل ہے جس کو اصطلاح شریعت میں کب اورعمل کہتے ہیں ۔ اور کب اور عمل کو بندہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ قرآن کریم میں حق تعالی نے ہر جگہ خلق کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ ”والله خلقكم وما تعملون“ اس آیت میں اللہ تعالی نے خلق کو اپنی طرف اور عمل کو بندوں کی طرف منسوب فرمایا اس میں شک نہیں کہ بندہ کا ہرنعل اللہ کے علم اور ارادہ سے صادر ہوتا ہے لیکن اللہ تعالی نے بندہ کو بھی کچھ اختیار اور قدرت کی صفت عطا کی ہے جس سے بندہ اپنے ارادہ اور اختیار سے فعل کر سکے جس طرح دنیا میں بندہ کے اختیاری فعل پر جزا وسزا کا ملنا حق ہے اسی طرح آخرت میں جزا وسزا کا ملنا بھی حق ہے۔
عقیدو دیم .....
قضاء وقدرتی ہے، اور قضاء وقدر کے معنی اور اس بات کا بیان کہ تقدیر سے بندہ مجبور نہیں ہو جا تا
قضاء قد رحق ہے اور اس پر ایمان لانا فرض ہے اور ایمان بالقدر کے معنی یہ ہیں کہ اس بات کا یقین اور اعتقادر کھے کہ اللہ تعالی نے مخلوق کے پیدا کرنے سے پہلے ہی خیر اور شرکو اور
ایمان اور کفر کو اور ہدایت اور ملالت کو اور طاعت اور معصیت کو مقدر فرما دیا ہے اور اس کو لکھ دیا ہے۔اب عالم میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اس کے ارادہ اور مشیت سے ہو رہا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے اس کو پہلے ہی سے علی وجہ الکمال والتمام اس کا علم تھا۔ تقدیر کے معنی لغت میں اندازہ کرنے کے ہیں جو کام ارادہ اور اختیار سے کیا جا تا ہے اس کو سمجھ لیتے ہیں اور اس کا ایک اندازہ کر لیتے ہیں مثلا اگر مکان بنانے کا ارادہ ہوتا ہے تو پہلے اس کا نقشہ تیار کر لیتے ہیں تا کہ مکان کی عمارت اس نقشہ کے مطابق بنائی جائے ۔اسی طرح سمجھو کہ حق جل شانہ نے جب اس کارخانہ دنیا کے بنانے کا ارادہ فرمایا تو بنانے سے پہلے اللہ تعالی نے اپنی علم ازلی میں اس عالم کا نقشہ بنالیا اور ابتدا سے انتہا تک ہر چیز کا انداز و لگالیا پس اس اندازہ خداوندی اور نقشہ پنہانی کا نام تقدیر ہے اور لغت میں بھی تقدیر کے معنی اندازہ کرنے کے میں اللہ تعالی نے اپنے علم ازلی میں اندازہ کرلیا کہ فلاں وقت فلاں مکان میں فلاں شی ء اس طرح ہوگی اور فلاں شخص پیدا ہونے کے بعد فلاں وقت میں ایمان لاۓ گا اور فلاں شخص پیدا ہونے کے بعد فلاں وقت کفر کرے گا وغیرہ وغیرہ۔ كما قال تعالى: ( قد جعل الله لكل شيء قدرا ) (سورہ طلاق: آیت ۳، پاره ۲۸) اللہ تعالی نے ہر شے کا ایک اندازہ (اپنے علم میں مقرر کر رکھا ہے۔“ بس اللہ تعالی کا پیدائش عالم سے پہلے اپنے علم ازلی میں کائنات کا اندازہ بنانے کا نام تقدیر ہے اور پھر حق تعالی کا اس کارخانہ عالم کو اپنے نقشہ اور اندازہ کے مطابق بنانے اور پیدا کرنے کا نام قضاء ہے اور اخت میں قضاء کے معنی پیدا کرنے کے ہیں۔ كما قال تعالى: « فقضا هن سبع سموات في يومين ) ( سورہ تم مجده: آیت ۱۳، پاره ۲۴)سودوروز میں اس کے سات آسان بنادیئے۔“ پس اہل سنت و جماعت کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ قضاء قد رحق ہے اور کوئی ذرہ اس کی تقدیر سے باہر نہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ اس کی قضاء وقد رکو کوئی ٹال سکے یا اس کو آگے یا پیچھے کر سکے وہ جس کو چا ہے ہدایت دے اور جس کو چاہے گمراہ کرے، اس سے کوئی باز پرس نہیں ہو سکتی۔ البتہ بندوں سے ان کے افعال پر باز پرس ہوگی اور طاعت اور معصیت پر جزاء اور سزا ملے گی۔ بہر حال اللہ کی قضا و قدرحق ہے اس میں غلطی اور خطاء کا کوئی امکان نہیں ۔ تعمیر مکان سے پہلے بندہ اپنے علم اور ارادہ کے مطابق نقشہ بنا تا ہے ۔ خدا تعالی نے بھی پیدائش عالم سے پہلے اپنے علم ازلی میں اس عالم کا نقشہ بنایالیکن خدا کے اور بندہ کے علم میں فرق ہے۔ وہ یہ کہ بندہ بسا اوقات کسی مانع کی وجہ سے اپنے علم اور اندازہ اور اپنے نقشہ کے مطابق مکان بنانے پر قادر نہیں ہوتا اس لئے بندہ کا علم اور اندازہ بسا اوقات غلط ہو جا تا ہے مگر خدا تعالی جس کام کا ارادہ فرمائیں اسے کوئی روک نہیں سکتا اس لئے کہ اللہ کا علم اور اس کی تقد مر غلط نہیں ہوسکتی ہمیشہ واقع کے مطابق ہوگی اور اس کے ارادہ کوکوئی روک نہیں سکتا۔ نیز بندہ کا علم نہایت ناقص ہے بہت سی چیزوں کا علم بندہ کو نقشہ بنانے کے بعد ہوتا ہے اس لئے بندہ کے علم اور اس کے نقشہ میں فرق ہو جا تا ہے اور باری تعالی کا علم چونکہ محیط ہے اس لئے اس کے علم اور نقشہ میں فرق نہیں ہوسکتا۔پس اللہ کی تقدیرحق ہے اور اس پر ایمان لانا فرض ہے لیکن اپنے افعال اور اعمال کے عذر میں تقریر کو پیش کرنا درست نہیں مثلاً کوئی شخص چوری کرے یا زنا کرے اور عذر یہ کرے کہ میری تقدیر میں یوں ہی لکھا ہوا تھا تو یہ عذر اس کا صحیح نہیں اور مواخذہ سے بچانے کے لئے کافی نہیں۔ بے شک اللہ نے ہر چیز کو مقدر کیا ہے مگر تجھے تقدیر کا کوئی علم نہیں۔ جس وقت تو نے چوری کا یا زنا کا ارتکاب کیا تو خواہش نفسانی کی بنا پر کیا تجھ کو اس وقت یہ معلوم نہ تھا کہ تیری تقدیر میں کیا لکھا ہوا ہے؟ یہ سب بہانہ ہے تجھے تقدیر کا کوئی علم نہیں یہ کام تو نے مجبور ہو کر نہیں کیا بلکہ بصد رضا ، و رغبت اور بصد مشقت و ر بصد مشقت محنت اپنی پوری قدرت اور استطاعت خرچ کر کے کیا لہذا کسی کا یہ کہنا کہ بندہ تو مجبور ہے تقدیر کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا بلکہ دھوکہ اور فریب ہے، بندہ اللہ کے علم اور اس کی تقدیر سے مجبور نہیں ہو جا تا بندہ جو کچھ کرتا ہے وہ اپنے ارادہ اور اختیار سے کرتا ہے اگر چہ وہ ارادہ اور اختیار بھی خدا ہی کی طرف سے بندہ کو ملا لہذا بندہ اس فعل میں مختار ہے مجبور نہیں ، رہا یہ امر کہ بندہ سے خلاف تقدیر کسی فعل کا سر زد ہونا محال اور ناممکن کیوں ہے؟ سو اس کی یہ وجہ نہیں کہ بندہ مجبور ہے اور قدرت اور اختیار سے عاری ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کا علم اور اس کی خبر اور اس کی تقدیر میں غلطی کا امکان نہیں اس لئے اس کے خلاف ہونا محال اور ناممکن ہے، تقدیر تواللہ کی ایک حکایت اور خبر ہے اور علم معلوم کے تابع ہوتا ہے اور حکایت اور خبر حکی عنہ اور واقع کے مطابق ہوتی ہے۔ معلوم علم کے تابع نہیں ہوتا اور واقعہ خبر اور حکایت کے تابع نہیں ہوتا علم مجبوری کا سبب نہیں ۔ اللہ تعالی کو جس طرح ہمارے افعال و اعمال کا علم ہے اسی طرح حق تعالی کو اپنے افعال کا یہی علم ہے مگر خدا تعالی اس علم کی وجہ سے کسی فعل میں مجبور نہیں اس طرح سمجھو کہ بندہ اللہ کے علم اور تقدیر سے مجبور نہیں ہو جاتا اللہ کا علم اپنی جگہ پر ہے اور بندہ اپنی جگہ پر ہے دنیا میں بندہ کو کوئی مجبور نہیں سمجھتا بندہ اگر مجبور ہوتا تو حکومت مجرموں کے لئے جیل خانہ نہ بناتی۔ خدا تعالی نے بندہ کو قدرت اور اختیار دیا ہے جس سے وہ اپنے دین اور دنیا کے کام کرتا ہے لیکن بندہ اپنے اس اختیار میں مستقل نہیں جیسے بندہ اپنے وجود میں مستقل نہیں اسی طرح بندہ اپنے اختیار میں مستقل نہیں جس طرح خدا کے عطا کردہ وجود سے موجود کہلاتا ہے اور اس کی عطا کردہ آنکھ اور کان سے بینا اور شنوا کہلاتا ہے اسی طرح خدا داد قدرت اور اختیار سے بندہ قادر اور مختار کہلاتا ہے پس جس طرح بندہ کی جمع اور بھر اختیاری نہیں لیکن اس کا دیکھنا اور سنا اختیاری ہے اسی طرح بندہ کا اختیار اختیاری نہیں لیکن بندہ کانفعل اختیاری ہے اس لئے اہل حق یہ کہتے ہیں کہ بندہ اپنی صفت اختیار میں مختار ہیں گر اپنے افعال و اعمال میں مختار ہے۔حق تعالی کو بندہ کے افعال اور اس کے حرکات وسکنات کا خالق ماننے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ حرکات بندہ کی قدرت اور اختیار سے خارج ہو جائیں اس لئے کہ اللہ تعالی نے قدرت اور مقد در دونوں ہی کو پیدا کیا اور اختیار اور ذی اختیار دونوں کو بنایا قدرت بندہ کی ایک۔ صفت ہے اور خدا تعالی کی پیدا کی ہوئی ہے اور بندہ اور بندہ کی صفت قدرت سب خدا ہی کی پیدا کی ہوئی ہے اور اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور بندہ جو خدا کی دی ہوئی صفت قدرت سے کوئی حرکت کرتا ہے تو وہ حرکت تمام عقلاء کے نزدیک اختیاری ہے لرزہ اضطراری نہیں غرض یہ کہ بندہ کی ذات اور اس کی کسی صفت اور کسی فعل کے ساتھ خدا تعالی کی قدرت اور اس کے ارادہ اور مشیت کے متعلق ہو جانے سے بندہ مجبور نہیں ہو جا تا ۔آخر خدا تعالی کی قدرت اور مشیت بندہ کے صفت وجود سے بھی متعلق ہے مگر اس تعلق کی وجہ سے بندہ معدوم نہیں ہو گیا اسی طرح اللہ کی قدرت اور مشیت بندہ کی قدرت اور اختیار کے ساتھ متعلق ہو جانے سے بندہ مجبور نہیں ہو جائے گا۔ بندہ بہر حال بندہ ہے اور خدا تعالی کی ۔ مخلوق ہے اور مخلوق کی ذات اور صفات کا خالق کے دائرہ قدرت دمشیت سے باہر نکلنا عقلاً محال اور ناممکن ہے جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بندہ فاعل مستقل ہے اور خود اپنے افعال کا خالق ہے اور معاذ اللہ خدا تعالی کی قدرت اور مشیت کو بندہ کے افعال سے تعلق نہیں تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ایک مخلوق۔ اپنے افعال و اعمال میں اپنے خالق کے دائرہ قدرت و مشیت سے باہر کل سکتی ہے تمام امت بالاتفاق یہ کہتی ہے "ماشاء الله كان وما لم يشأ لم يكن“ کہ جو اللہ نے چاہا وہ تو ہوا اور جو نہ چاہا وہ نہیں ہوا معتزلہ بندھ کے افعال کو خدا کی مشیت سے منشی سمجھتے ہیں۔ ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم.لحد اور بے دین لوگ احکام شریعت کو قضاء وقدر کے معارض سمجھتے ہیں اور شریعت کے احکام سے سبکدوش ہونے کے لئے قضاء و قدر سے استدلال کرتے ہیں اور طرح طرح کے شکوک مسلمانوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں۔ اس لئے چند حروف طالبان حق کی تشفی کے لئے لکھتے ہیں۔ ولا حول ولا قوة إلا بالله حق جل شانہ نے یہ کارخانہ ایک طرح پرنہیں پیدافرمایا تم قسم کی چیزیں پیدا فرمائیں۔ صورت اور شکل بھی ہر ایک کی علیحدہ بنائی۔ ہر ایک میں استعداد بھی جدا گانہ رکھی ایک ہی درخت کو لے لیجے جس میں ہزاروں قسم کی لکڑی موجود ہے بعض ان میں سے جلانے کے قابل ہے اور بعض تخت بنانے کے قابل ہے اور کوئی چھت میں لگانے کے قابل اور کوئی بیت الخلاء کے قد پچوں میں لگانے کے قابل ہے۔ ایک ہی کان سے لوہے کے نکلے ہوئے دو ٹکڑے ہوتے ہیں۔ ایک سے آئینہ شاہی بناتے ہیں اور ایک سے چوپایوں کا فعل بناتے ہیں ۔ یہ استعدادوں کا تقادت اللہ کے ارادہ اور مشیت سے ہے۔ تمام عالم کے عقلاء اس پر متفق ہیں کہ کائنات کی استعداد میں اور سنتیں اور کیفیتی برابر اور یکساں نہیں اور اگر سب یکساں ہوتیں تو یہ رنگ برنگ کا کار خانہ نہ چلنا کوئی اور عالم ہوتا ہر کے باہر کارے دردش ساختند انداختید اورا میل اب رہا یہ امر کہ یہ استعدادوں میں اختلاف اور تفاوت کیوں ہے تو یہ عقدہ آج تک تو کسی سے حل نہیں ہوا اور نہیں ہو گا عکس به کشود و نه کشاید حکمت این معما را مسلمان یہ کہتا ہے کہ یہ سب اس علم وحکیم کی حکیم حکمتیں ہیں اور دہری (بے دین ) یہ کہتا ہے کہ میں استعدادوں کا تفاوت اندھے اور پہرے مادہ اور اس کی حرکتوں کو اقتضاء ہے ( بیض دعوی ہے جس پر کوئی دلیل نہیں اور اگر ہے تو لائے اور دکھاۓ )۔ پس جس طرح حق تعالی نے شجر اور حجر کو اپنی قدرت اور حکمت سے ایک قسم کانہیں پیدا کیا بلکہ ہر ایک میں بی استعداد پیدا کی کسی میں اچھی استعداد پیدا کی اور کسی میں بری استعداد۔ ای طرح اللہ تعالی نے تمام بندوں کو یکساں اور برابر نہیں پیدا کیا کہ سب کی استعداد برابر ہوتی ۔ کسی کو عاقل اور ذکی بنایا اور کسی کوفی اور بی نقل بنایا۔ کسی میں قبول حق کی استعداد پیدا کی اور کسی میں قبول شر کی استعداد رکھی ۔ کسی کے دل کو آئینہ کی طرف صاف و شفاف بنادیا کہ آفتاب کے عکس کو قبول کر سکے اور کسی کے دل کو کالے توے کی طرح بنادیا اسی طرح کسی کے ول کو اپنے انوار وتجلیات کا شانشین بنالیا اورکسی کواپنے مطلب جنم ) کے لئے ایندھن بنالیا۔كما قال تعالى: « و لقد ذرانا لجهنم كثيرا من الجن والإنس ؟ (سورۃ اعراف آیت :اور ہم نے ایسے بہت سے جن وانس دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں ۔ در کار خانه عشق از کفر ناگزیر است دوزخ کرا بسوز وگر بو لہب نباشد اور کسی کی مجال نہیں کہ خداوند ذوالجلال سے کوئی سی سوال کر سکے کہ آپ نے اس چیز کوایسا اور اس چیز کو ایسا کیوں پیدا کیا۔ ( لا يستل عما يفعل وهم يستلون ؟وہ جو کچھ کرتا ہے اس سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتا اور اوروں سے باز پرس کی جاسکتی ہے۔“ (سورہ انبیاء: آیت ۲۳، پارہ ۱۷)
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
شبہ یہ ہے کہ بندوں کے اقوال اور افعال کا دارومدار استعدادوں پر ہے اور وہ سب از لی ہیں اور آدمیوں کی طاقت سے باہر ہیں ، لہذا کافروں پر الزام کیا۔ اور کیا وہ فی الحقیقت مجبور اور بے اختیار ہیں۔
ازالہ:
حق تعالی شانہ نے مخلوقات کو دو قسم پر پیدا کیا ہے۔ایک قسم تو وہ ہے کہ جس میں اللہ تعالی نے علم اور ارادہ کی صفت ہی نہیں رکھی جیسے درخت اور پتھر ، اس نوع سے نہ کوئی خطاب ہے اور نہ اس پر کسی قسم کا عتاب ہے اور نہ مواخذہ ہے اور نہ ثواب اور عقاب ہے اور دوسری قسم وہ ہے جس میں اللہ تعالی نے یہ دونوں صفتیں (علم اور ارادہ ) امانت رکھی ہیں جیسے جنات اور انسان، ان کواللہ تعالی نے علم بھی دیا نہم بھی قدرت اور اختیار بھی دیا۔ اعضاء اور جوارح بھی دیئے جان بوجھ کر اپنے اختیار سے افعال کرتے ہیں اور ان افعال کو اپنی طرف منسوب کر تے ہیں ۔ مثلا یہ کہتے ہیں کہ یہ افعال ہم نے اپنے ہاتھوں اور پیروں سے کئے ہیں اور میں نے یہ کہا اور میں نے یہ کیا اور اس کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ افعال ہمارے ارادہ اور اختیار سے صادر ہوتے ہیں اور دنیا میں جو کچھ ان افعال پر جزا وسزا مرتب ہوتی ہے اس کو قبول کرتے ہیں لیکن جب اخروی جزاوسزا کا ذکر آتا ہے تو یہ کہنے لگتے ہیں کہ ہم مجبور ہیں اور یہیں سمجھتے کہ اللہ تعالی نے ان میں علم اور ارادہ اور اختیار کی جو صفت پیدا کی ہے وہ اس لئے پیدا کی ہے کہ وہ احکام خداوندی کے مکلف اور مخاطب بن سکیں اور اطاعت اور معصیت پر جزا اور سزا مرتب ہو سکے اور جس طرح شابان دنیا محض قابلیت : پر کوئی انعام یا سزا نہیں دیتے اسی طرح حق تعالی محض استعداد پر جزاء وسزا نہیں دیتے جب تک عمل خیر وشر ظہور میں نہ آ جاۓ ۔ محض شجاعت اور بہادری پر انعام نہیں ملتا جب تک کسی میدان میں بہادری سے دکھلائے ۔ اسی طرح محض استعداد پر ثواب اور عقاب نہیں ملتا جب تک کوئی طاعت اور معصیت ظہور میں نہ آۓ۔
عقیدہ یاز دہم ...
حق تعالی شانہ متکلم ہے ، صفت کلام کی تحقیق
حق تعالی شانہ متکلم ہے یعنی ازل سے ابد تک اس کو صفت کلام حاصل ہے بھی تکلم سے خالی نہیں رہا۔ ایک ہی وقت میں تمام مخلوق کی آوازوں اور دعاؤں کوستا ہے اور سب کا جواب دیتا ہے اور ایک جانب دوسری جانب سے اس کومشغول اور غافل نہیں کرتی جس طرح چاہتا ہے کلام کرتا ہے ۔ توریت اور انجیل اور زبور اور فرقان اور تمام کتابیں اور صحیفے جو حضرات انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام پر نازل ہوۓ وہ سب اس کے کلام کی تفصیل ہیں ۔ حق تعالی کا کلام ایک ہے اور بسیط ہے اور یہ تمام کتب منزلہ اور صحف مرسلہ اس کے کلام بسیط کے اوراق میں جو نزول میں مختلف الآثار ہیں۔ کلام ایک صفت کمال ہے اور گونگا ہونا عیب ہے اور اللہ تعالی کے لئے تمام صفات کمال ثابت ہیں اور اللہ تعالی تمام صفات نقص سے پاک اور منزہ ہے اور کلام چونکہ اللہ تعالی کی صفت ذاتی ہے اس لئے وہ قدیم ہوگی حادث نہ ہوگی ۔ کیونکہ قدیم کی صفت بھی قدیم ہوتی ہے۔ بعض اہل بدعت کا یہ قول ہے کہ خدا تعالی اس معنی کو متکلم ہے کہ وہ خالق کلام ہے لینی دوسرے میں کلام کو پیدا کر دیتا ہے اور یہ سراسر جہالت اور نادانی ہے اور لغت عرب سے بے خبری ہے متحرک لغت میں اس کو کہتے ہیں جو خود حرکت کے ساتھ موصوف ہو ، جو دوسرے میں حرکت پیدا کرے اس کو متحرک نہیں کہا جا تا اسی طرح خالق کلام کو تسلیم نہیں کہا جا تا۔ جاننا چاہئے کہ اللہ تعالی کی صفت کلام میں کسی کو کلام نہیں ۔ مطلقاً کلام کرنا تمام اہل اسلام کے نزدیک مسلم اور متفق علیہ ہے البتہ اختلاف اس کی حقیقت اور کیفیت میں ہے کہ اللہ کا کلام کس طرح ہے اور کیونکر ہے ؟ حضرات متکلمین کہتے ہیں کہ اللہ کا کلام حروف اور اصوات سے مرکب نہیں اللہ کا کلام اس کی ایک صفت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اس میں نہ حرف ہے اور نہ آواز ہے اور یہ حروف عربیہ اور نقوش کتابیہ اس کے کلام قدیم کی دلالات اور عبارات ہیں جن کے ذریعہ اس کا کلام قدیم پڑھا جاتا ہے اور سنا جاتا ہے اور جن حروف اور کلمات کے ذریعہ ہم کلام خداوندی کی تلاوت اور قراءت کرتے ہیں یہ حروف اس کے کلام قدیم کا لباس ہیں۔ اس کا عین نہیں اور عقلاً یہ بات محال ہے کہ امر قدیم کسی حادث اور فانی ذات کی حادث اور فانی زبان اور فانی حلقوم کے ساتھ قائم ہو سکے یا کوئی امر قدیم کسی حادث اور فانی میں حلول کر سکے ۔ حادث ، قدیم کامل نہیں ہوسکتا البتہ ایک حادث چیز ۔ قدیم کے لئے آئینہ اور مظہر اور تجلی گاہ بن سکتی ہے آنکھ کی پتلی میں آسمان دکھلائی دے سکتا ہے مگر آنکھ کی پہلی آسان کا محل اور ظرف نہیں ہوسکتی اس لئے تمام حضرات متکلمین اور تمام اولیاء و عارفین اس بات پرمتفق ہیں کہ اللہ کا کلام جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اس میں نہ حرف ہے اور نہ آواز ہے۔ حضرات محدثین یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں حروف بھی ہیں اور صوت بھی ہے مگر اللہ کے کلام کے حروف اور الفاظ اور اس کی صوت و آواز ہمارے الفاظ اور صوت کی طرح نہیں جس طرح ذات خداوندی بے چون و چگون ہے اس طرح اس کا کلام بھی بے چون و چگون ہےلیس کمثله شیء حضرات متکلمین کہتے ہیں کہ جس طرح اللہ کی ذات بے چون و چگون ہے، اسی طرح اس کی صفت کلام بھی بے چون و چگون ہے اس کو اس کے عالم امکان کے ساتھ کوئی مناسبت اور مشابہت نہیں اور گرفتاراں چونی و چندی کو اس بے چون حقیقت از لیہ تک رسائی ممکن نہیں اس لئے خداوند کریم نے اپنی عنایت بے غایت سے زبان عربی کے لباس میں، اپنی اس وصف ذاتی اور کمال ڈائی کو نازل فرما کر اس کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان واسطہ بنایا تا کہ اس کے ذریعہ سے بندے خدا سے اپنا رابطہ قائم کر سکیں۔اس لئے حق تعالی نے اس بے چون حقیقت از لیہ کو عرب کے حروف اور کلمات مستعملہ کے لباس اور صورت میں ظاہر فرمایا اور یہی وجہ ہےکه آیات قرآنی با جوان حروف مستعملہ سے مرکب ہونے کے حد اعجاز کو بچی ہوئی ہیں ان جیسے ایک جملہ کی ترکیب غیر خداسے مکن نہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ بینظم عربی جو اس کی خاص صفت کلام کا آئینہ اور مظہر ہے اس میں خداوند بے چون و چگون کی شان بے چونی و بے چگونی امانت اور دولیت رکھی ہوئی ہے جہاں کسی کی رسائی ممکن نہیں اس لئے تمام جن و انس اس جیسے ایک جملہ کی ترکیب سے عاجز ہو گئے اور چونکہ بینظم عربی اس کی شان بے چونی و بے چگونی کی امانت گاہ ہے اس لئے شرعا اس کا ادب اور احترام واجب ہوا اور بغیر وضو کے اس کو ہاتھ لگانا نا جائز ہوا اور شریعت کی طرف سے تلاوت کے آداب مقرر ہوۓ لہذا اس نظم عربی کو اس کے بے چون و چون کلام کی ایک صورت اور لباس جانو اور یہ سمجھو کہ اس کا بے چون و چگون کلام اس پر دو میں مستور ہے اور بینظم عربی اس کے کلام قدیم کا عین نہیں بلکہ اس کا ایک لباس ہے جس طرح "الكلمة لفظ وضع لمعنى مفرد میں لفظ معنی کے لئے لباس ہے اور معنی اس پر وہ لفظ میں مستور ہیں مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ الفاظ میں معانی ہیں ۔واللہ اعلم وعلمه اتم واحكم حضرات اہل علم اتحاف شرح احیاء العلوم کی طرف مراجعت اور اس ناچیز کا رسالہ"الكلام الموثوق في تحقيق ان القرآن كلام الله غیر مخلوق دیکھیں ۔ عقیده دوازدم..... قرآن مجید حق تعالی کا کلام ہے اور قدیم اور غیر مخلوق ہےقرآن مجید حق تعالی کا کلام ہے اور قدیم اور غیر مخلوق ہے قرآن کریم کو حق تعالی نے خود اپنا کلام کہا ہے اور اس کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے "حتى يسمع كلام اللہ اور ای پر تمام امت کا اجماع ہے کہ قرآن کلام خداوندی ہے اور صفت خداوندی ہے اور خدا تعالی اپنی تمام صفات میں قدیم ہے ۔ قرن اول میں قرآن کے غیر مخلوق ہونے میں کسی کو خلاف نہ تھا اور عہد صحابہ کے بعد سلف بھی اس کے غیر مخلوق ہونے پرمتفق رہے۔ (1) حق تعالی شانہ کا ارشاد ہے:( إنما قولنا بشيء إذا أردته أن تقول له كن فيكون )( سور پل: آیت ۳۰، پار ۱۴۹)جب ہم کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو صرف یہ کہہ دیتے کہ ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے۔“ پس جب کہ ہر چیز "قول کن“ سے پیدا ہوتی ہے تو معلوم ہوا کہ اللہ کا بیقول اور میں کلام مخلوق نہیں ورنہ اس قول کے پیدا کرنے کے لئے ایک دوسرے قول کن“ کی ضرورت ہوگی اور دوسرے کے لئے تیسرے کی غرض یہ کہ غیر متناہی سلسلہ چلے گا پس ثابت ہوا کہ اللہ کا کلام غیرمخلوق ہے۔(۲) ابن عباس، ﷺ فرماتے ہیں "قرآنا عربيا غير ذي عوج“ (سورہ زمر آیت : ۲۸ پارہ ۲۳) میں قرآن کے غیر مخلوق ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ "إذ ما من مخلوق إلا فيه عوج کوئی مخلوق نے ایسی نہیں جس میں کبھی نہ ہو اور قرآن کے متعلق حق تعالی فرماتا
ہے غیر ذی عوج‘ اس میں کوئی بھی نہیں۔ (۳) ابن عباس ﷺ نے ایک شخص کو خانہ کعبہ کے سامنے یا رب القرآن“ کہتے سنا۔ یہ فرمایا کہ یہ کلمہ زبان سے مت نکال۔ "إن كل مزبوب مخلوق کیونکہ ہر مربوب مخلوق ہوتا ہے اور قرآن غیر مخلوق ہے۔
(۴) نیز اگر قرآن مخلوق ہوتا تو اس کا مشل لا نا بھی ممکن ہوتا یہ حافظ تو پشتی پینے کے کلام کا خلاصہ ہے اور امام ربانی مجدد الف ثانی ﷺ فرماتے ہیں قرآن مجید حق تعالی کا کلام ہے جس کو اللہ تعالی نے حرف اور آواز کالباس دے کر ہمارے پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل فرمایا ہے اور بندوں کو اس کے ساتھ امر و نہی کا مخاطب بنایا ہے جس طرح ہم اپنے نفسی کلام کو کام اور زبان کے ذرایہ حرف اور آواز کے لباس میں لا کر ظاہر کرتے ہیں اور اس طرح اپنے پوشیدہ مقاصد اور مطالب کو عرصہ ظہور میں لاتے ہیں۔اسی طرح حق تعالی شانہ نے اپنے کلام نفسی کو بغیر کام و زبان کے وسیلہ کے محض اپنی قدرت کاملہ سے حروف اور آواز کا لباس عطا فرما کر اپنے بندوں پر بھیجا ہے اور اپنے پوشیدہ اوامر و نواہی کو حروف اور آواز کے ضمن میں لا کر ظہور کے میدان میں جلوہ گر کیا ہے پس کلام کی دونوں تمہیں یعنی کلام نفسی اور کلام قفلی طی حق تعالی کا کلام ہیں اور دونوں قسموں پر کلام کا اطلاق حقیقت کے طور پر ہے۔ جس طرح کہ ہمارے کلام کی دونوں میں نفسی اورلفظی حقیقت کے طور پر ہمارا کلام ہیں نہ یہ کہ تم اول (نفسی ) تو حقیقت ہے اور دوسری قسم (اقلی ) مجاز ہے اس لئے کہ جہاز کی علامت ہی یہ ہے کہ اس کی بھی جائز ہو ار کا م ی ی ی ی کرنا اور اس کلام خداوند کہنا بلاشبہ کفر ہے۔ (مکتوب (۶۷) از دفتر دوم ) جیسے قرآن کریم میں ہے کہ کافر کہتے ہیں:( إن هذا إلا قول البشر » (سوره مدثر آیت: ۲۵ پار۲۹۰) ی قرآن ، بشر کا قول ہے یعنی اللہ کا کلام نہیں۔“ نیز اگر قرآن مخلوق ہوتا تو اس کامل لا ناممکن ہوتا اور جب اس کا مشل لا نا ناممکن ہوا تو معلوم ہوا کہ قدیم اور غیر مخلوق ہے۔قال تعالى: ( يسمعون كلم الله لم يعرفونه » (سوره بقره آیت: ۷۵ پاره ۱ ) اللہ کے کلام کو سنتے ہیں اور پھر اس میں تحریف کرتے ہیں۔“ خلاصہ یہ کہ کلام لفظی کی طرح کلام نفسی بھی تین کلام ہے ۔ كما قال تعالى: ( ويقولون في انفسهم لولا يعذبنا الله بما تقول ؟(سوره مجادله آیت ۸ پاره ۲۸)اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمارے کہے ہوۓ پر کیوں عذاب نہیں دیتا۔“ ( وأسروا قولكم أواجهروا به » (سوره ملک: آیت ۱۳، پار۲۹۰) آہستہ بات کہو یا آواز سے ۔“ "وقال عمر يوم السقيفة زورت في نفسي مقالة حضرت عمر نے سقیفہ بنی ساعدہ والے دن یہ فرمایا کہ میں نے اپنے دل میں کچھ کلام تیار کیا ہے۔ ان نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام نفلی اور کلام نمی دونوں پر کلام کا اطلاق حقیقت ہے۔ جاننا چاہئے کہ کلام الہی کا اطلاق دو معنی پر ہوتا ہے اول یہ کہ کلام اللہ تعالی کی ایک صفت بسیط ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اس کے قدیم ہونے میں کسی کو کلام نہیں۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ کلام سے وہ کلمات نہی مراد لئے جاتے ہیں جن کا حق سبحانہ وتعالی نے تکلم فرمایا قرآن کو اللہ کا کلام اس معنی پر کہا جاتا ہے ۔ یہی قرآن اللہ کا کلام ہے جو نبی کریم پر اتارا گیا اور جس کو ہم اپنی زبانوں سے پڑھتے ہیں اور کانوں سے سنتے ہیں اور ہمارے سینوں میں محفوظ ہے اور ہمارے مصاحف میں لکھا ہوا ہے یہ قدیم اور غیر حلوق ہے مگر قرآن کی قرات اور اس کی ساعت اور اس کی کتابت حادث اور مخلوق ہے اس لئے کہ قراءت اور ساعت اور کتابت میں بندے کے افعال میں اور بندے کے افعال حادث اور مخلوق ہیں ۔ امام بخاری اور دیگر علماء محققین کا یہی مسلک ہے۔ امام ذہلی یہ کا مسلک یہ تھا کہ جو شخص یہ کہے کہ لفظی بالقرآن حادث یعنی قرآن کا تلفظ اور اس کی ساعت حادث ہے تو وہ شخص مبتدع ہے، جو لوگ لفظی بالقرآن حادث کہنے کو بدعت کہتے تھے ان کو اصطلاح علماء میں فرقہ لفظیہ کہا جا تا ہے۔ یہی مسئلہ امام بخاری اور امام ذہلی کے درمیان میں تندر اور تنافر کا باعث بنا حقیقت تو وی ہے کہ جو امام بخاری فرماتے ہیں کہ قرآن کریم قدیم ہے مگر قرآن کی قرات اور اس کی ساعت حادث اور مخلوق ہے اس لئے کہ قرآت اور سماعت بندہ کا فعل میں لیکن امام ذیلی مینی افظی بالقرآن حادث کہنے کو اس لئے ناپسند فرماتے تھے کہ ان الفاظ سے کسی کو ملفوظ اور مقرود کے حادث اور مخلوق ہونے کا شبہ نہ ہو جاۓ اس احتیاط کی بناء پر اس لفظ کے استعمال سے منع فرماتے اور چونکہ اس قسم کی تعبیر عہد صحابہ اور تابعین میں بھی اس لئے اس کو بدعت فرماتے اس قسم کا اطلاق اگر چہ بدعت شرعیہ کی حدود سے باہر ہے لیکن ذہلی پہ جیسے امام عالی مقام کی بارگاہ میں اتنا تغیر بھی بدعت سمجھا گیا۔ امام بخاری ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ صفت خداوندی اور نعل عبد کا فرق واضح ہو جاۓ اور تعبیر ایسی صاف ہوجائے کہ کوئی قصور نہم کی وجہ سے حادث کو قدیم اور قدیم کو حادث نہ سمجھ ہاۓ "ولكل وجهة هوموليها فاستبقوا الخيرات
عقیدۂ سیر دهم...
حق تعالی تمام نقائص اور عیوب سے منزہ ہے حق تعالی تمام نقائص اور عیوب اور حدوث اور امکان کے شوائب اور نشانوں سے منزہ اور مبرا ہے نہ جسم اور جسمانی ہے اور نہ مکانی اور زمانی ہے جواہر و اجسام اور اعراض کی صفات اور لوازم سے پاک اور منزہ ہے اس کی بارگاہ میں مکان اور زمان اور جہت کی گنجائش نہیں ہے سب اس کی مخلوق ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں