برمودا تکون اور دجال
مولانا عاصم عمر
مطالعے سے پہلے چند باتیں برمودا تکون کے بارے میں لکھنے کا مقصد کی معلومات میں اضافہ کرنانہیں ہے بلکہ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم مکمل کرنا ہے جو آپ نے اپنے صحابہ کوفتوں کے بارے میں دی ۔ وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے بارے میں بہت فکر مند رہتے تھے اور انکو تمام فتنوں سے بار بار کا دفرماتے تھے۔ نہ صرف آگاہ فرماتے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں یہودیوں کی بستی میں جب ایک یہودی کے ہاں ایسے لڑکے کا پت چلا جس میں دجال کی نشانیاں پائی جاتی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ہمراہ خود وہاں تشریف لے گئے اور چپ کر اسکی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے رہے۔اسی طرح حضرت عمر فاروق کو اطلاع ملی کہ یمن میں ٹڈیاں ختم ہوگئی ہیں تو آپ پریشان ہو گئے اور اس کی تحقیق کرائی ۔ کیونکہ ٹڈیوں کاشتہ ہو جا تا علامات قیامت میں سے ہے۔ برمودا تکون شیطانی سمند را در اڑن طشتریوں کے بارے میں انگریزی زبان میں بہت کچھ لکھا جا تا رہا ہے۔ لیکن یہ تمام تحریر یں یا تو محض واقعات بیان کرتی ہیں یا زیادہ سے زیادہ سائنٹفک انداز میں اس موضوع پر بحث کرتی ہیں ۔مسلم محققین میں محمد عیسی داؤد مصری نے برمودا اور اڑن طشتریوں پر گہری تحقیق کی ہے اور اس مسئلے کو احادیث کی روشنی میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ جہاں تک راقم کا اس موضوع پر لکھنے کا تعلق ہے راقم کی مثال ایک دکاندار کی ی ہے جو اپنا سودا بیچنے کے لئے گاہک کو طرح طرح سے قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنا یہ سودا در رامت ہے ۔ اس ورد کو اپنے مسلمانوں بھائی بہنوں کو دینے کے لئے اپنی کج فہم میں جو طریقہ آتا ہے اسکو اختیار کر لیتا ہے ۔ ورنہ کیا برمودا تکون والا اور کیا اڑن طشتریوں والا ۔ ایک نھی سی جان اللہ نے دی ہے اس کی امانت ہے۔ جب چاہے لے لے۔ ہر ایک کو اپنا
جواب اپنے مالک کے سامنے دینا ہے۔
می در داس وقت اور بڑھ جاتا ہے جب پڑھے لکھے سمجھدار لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ فوج در فوج فکری گمراہی کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں ۔ نہ حالات کو قرآن کی نظر سے دیکھتے ہیں نہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی روشنی میں موجودہ وقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔انکے تجزیے ،تہرے اور مستقبل کی پیشن گوئیاں سن کر بھی ہنسی آتی ہے اور کبھی رونا۔ اس طرح وہ حق و باطل کے معاملات میں اپنی زبان وکیل سے دجال کے لشکر کے معاون بن رہے ہیں اور امام مہدی کے مجاہدین کی دل آزاری کا سبب بن رہے ہیں ۔ کتاب دو ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلے باب کے تین حصے ہیں۔شیطانی سمندر ۔ برمودا تکون ۔ اڑن طشتریاں ۔ دوسرے باب میں فتنوں سے متعلق احادیث ہیں ۔اس کتاب میں ان احادیث کو بیان نہیں کیا گیا ہے جنگلو راقم نے اپنی کتاب ' تیسری جنگ عظیم اور دجال میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ امام مہدی اور دجال کے بارے میں اگر مزید تفصیل در کار ہوتو راقم کی مذکورہ کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ جہاں تک اس بحث کا تعلق ہے کہ دجال برمودا تکون میں ہے یا شیطانی سمندر میں؟ اڑن طشتری کا مالک وہی ہے یا کوئی اور؟ اس طرح کی تمام بھٹوں میں راقم کا نقطہ نظر یہ ہے کہ محققین کی مختلف آراء ونحن نقل کر دیا جاۓ ۔ چونکہ دجال کے بارے میں قطع علم اللہ تعالی کوہی ہے لہذا بندہ کو ان میں سے کسی بھی رائے پر اصرارنہیں ہے ۔البتہ کسی رائے کی تائید اگر کسی حدیث سے ہوتی ہے تو اس حدیث کو بیان کر دیا ہے۔ یہی معاملہ اڑن طشتریوں کے حوالے سے ہے۔
چنانچہ کتاب میں بیان کئے گئے محققین کے نظریات و خیالات کے مقابلے میں کسی بھائی کے پاس قرآن وحدیث سے دلائل موجود ہوں تو وہ قابل ترجیح ہیں ۔ بندہ کا اصل مقصد لوگوں کو اس خطرے کی نوعیت کا احساس دلاتا ہے جو انکے گھروں کی دہلیز تک پہنچ چکا ہے اور دروازے جھنجوڑ کر پوچھ رہا ہے کہ اس حق و باطل کی جنگ میں تم کس کے ساتھ ہو؟ وجال اڑن طشتری پر آۓ یا حقیقی گدھے پر، وہ شیطانی سمندر میں ہو یا اصفہان میں ، ڈک چینی اس سے ملا ہو یا کوئی اور اس پر ہمیں کوئی اصرار نہیں ۔لیکن ووسب برحق ہے جو میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال اور اسکی قوت کے بارے میں بیان فرمایا۔ اور اس سے بچنا، اس سے بغاوت
کرتا ،اسکے منھ پے تھوکنا ہرمسلمان پر فرض ہے ۔سواسی فرض کی یاددہانی کے لئے جو کچھ بن سکا وہ آ پکی خدمت میں پیش ہے۔ کچھ دوستوں نے راقم کی کتاب'' تیسری جنگ عظیم اور دجال کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ کتاب میں ڈرا یا بہت گیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہی ہے تا کہ امت اس فتنے سے غافل نہ ہو جاۓ ۔ دجال کا بیان سن کر صحابہ اتنا ڈرتے تھے کہ آنسؤوں سے رونے لگتے تھے۔ چنانچہ یہ بیان ہی ایسا ہے کہ اس کو پڑھ کو ڈرنا ہی چاہیئے ۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ کو اپنے ایمان کی فکر ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ راقم کا مقصد صرف ڈرانا نہیں بلکہ خبردار کرنا ہے۔ تا کہ اس فتنے سے بچنے کی تیاری کی جاۓ ۔ ڈرنا اس معنی میں نہیں چاہنے کہ مایوس ہو جائیں ۔ اس مایوسی سے نکالنے کے لئے راقم جہاد اور مجاہدین کی کامیابیوں کے تازہ حالات بھی لکھتا ہے تا کہ مسلمانوں کو دجالی قوت کے ساتھ ساتھ یہ بھی پتہ رہے کہ اتنا کچھ ہوتے ہوۓ بھی میدان میں صورت حال کیا ہے ۔ اور کامیابیاں کس کے قدم چوم رہی ہیں۔ چنانچہ دجال کے فتنے اور اسکے اتحادیوں کی قوت کے بارے میں جاننے اور جہاد کے میدانوں سے آنے والی خبر میں ( مجاہدین کی زبانی نہ کہ میڈیا کی بھی سنئے اور اپنے بچے اللہ کا شکر ادا کیجئے کہ وہ کس کسمپرسی کے عالم میں امام مہدی کے لشکر کو مضبوط کر رہا ہے۔ یہ یادر کھئے کہ اگرفتنوں سے بچنے کے لئے فوری احتیاطی تدابیر ہیں کی گئیں تو ایمان بچانا مشکل ہو جاۓ گا ۔امام مہدی اور دجال کے بارے میں احادیث کا مطالعہ کر کے آپ کو میں احساس ہو جائے گا کہ جس دور سے ہم گزررہے ہیں یہ بہت اہم وقت ہے۔ چنانچہ اہم وقت میں اہم فیصلے کر کے ہی ہم خود کواپنے گھر بار، مساجد و مدارس اور اپنے علاقوں کو بچاسکتے ہیں ۔ کتاب پڑھنے کے بعد جتنے زیادہ افراد تک یہ پیغام پہنچا سکتے ہیں ضرور پہنچائے ۔ لوگوں کو احادیث کی روشنی میں حالات کو بجھنے کی دعوت دیجئے۔ گھروں میں خواتین اپنے بچوں کو دجال اور اسکے فتنوں کے بارے میں بتائیں ۔ کتاب کی تیاری میں جن کتب سے استفادہ کیا ہے انکے حوالے آخر میں دے گئے ہیں محض دوستوں اور بزرگوں کی دعاؤں کے سہارے ہی یہ کتاب آپکے سامنے ہے۔ دنیا کے ہنگاموں میں زیادہ وقت نہیں مل سکا۔ سو کتاب میں جو غلطی نظر آئے وہ راقم کی کم علمی سمجھئے گا۔ بہت سے دوستوں نے کتاب کی تیاری میں تعاون کیا ہے ۔ بلکہ بعض نے تو زبردستی ہی یہ کتاب لکھوائی ہے ۔ اللہ تعالی انکے دلوں میں اپنی ملاقات کا شوق پیدا فرماد ہیں ۔ اپنی خصوصی دعاؤں میں دجالی قوتوں کے خلاف لڑنے والوں کوضرور یاد رکھا کیجئے۔ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے لئے بددعائیں کیجئے۔ کہ اللہ انکی سازشوں کو ہی انگلی تباہی کا سامان بنادیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں