حق تعالی کسی چیز کے ساتھ متحد نہیں ہوتا اور نہ کوئی چیز اس کے ساتھ متحد ہوتی ہے اور نہ کوئی چیز اس میں حلول کرتی ہے اور نہ وہ کسی شئے میں حلول کرتا ہے۔ نصاری کے نزدیک خدا تعالی عیسی علیہ السلام میں حلول کر گیا تھا اور ہندوؤں کے نزد یک خدا تعالی انسان اور حیوان شجر اور حجر میں حلول کرتا ہے۔ سامری کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ بچھڑے میں خدا حلول کر آیا ہے سامریان ہند گائے کی پرستش میں اس سامری مصر کے قبیح اور پیرو ہیں اور چھوت کی رسم میں سامری کے "لا مساس“ سے ماخوذ ہے سامری جس کو دیکھتا تھا تو یہ کہتا تھا۔ لا مساس یعنی مجھ کو نہ چھونا۔ اسی طرح ہندو بھی ایک مسلمان کو دیکھ کر یہی کہتا ہے لامساس‘ مجھ کو ہاتھ نہ لگانا غرضیکہ ہندوؤں کی گوسالہ پرستی اور چھوت چھات ان دونوں رسموں کی سند سامری سے ملتی ہے ۔امام رازی قدس اللہ سرہ نے سامری کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ وہ فرقہ حلولیہ سے تھا جو خدا تعالی کا حلول کسی جسم میں جائز سمجھتے ہیں اسی طرح ہندوستان کے ہندو بھی اس کے شاگرد ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اس لئے کہ سامری کے متعلق گائے کا پیشاب پینا کہیں ثابت نہیں۔ گاۓ بیل حماقت میں ضرب المثل ہے جب کسی کو احمق کہنا ہوتا ہے تو اس کو بیل کہتے ہیں۔ ہندوؤں کو دیکھئے کہ اول تو ایک جانور کو اپنا معبود بنایا اور پھر جانوروں میں سے خدا بنانے کے لئے ایسے جانور کا انتخاب کیا کہ جو حماقت میں ضرب المثل ہے ۔اس اعتبار سے (یعنی حماقت کے لحاظ سے بندے (ہندو) اپنے معبود ( گاۓ بیل سے بھی بڑھ گئے حالانکہ بندہ کا معبود سے کسی کمال میں بڑھنا عقلا ناممکن اور محال ہے۔
حق تعالی کا کوئی مثل اور برابر نہیں۔ نہ اس کی عورت ہے اور نہ کوئی بیٹا۔ اور اپنی ذات اور صفات میں بے مثل اور بے مانند اور بے چون و چگوں ہے ۔ ہم فقط اس قدر جانتے ہیں کہ حق تعالی تمام صفات کمال کے ساتھ موصوف ہے اور جو کچھ ہمارے فہم اور ادراک اور عقل اور تصور میں آسکتا ہے حق تعالی اس سے منزہ اور بالا اور برتر ہے ۔
عقیده شاز دہم .....
حق تعالی پر کوئی شئے واجب نہیں حق تعالی پر کوئی شے واجب نہیں ۔ وجوب اور لزوم سے حق تعالی کے اختیار کا باطل ہونا لازم آتا ہے، وہ کون ہے کہ جو اللہ پر کوئی چیز واجب اور لازم کر سکے؟ معتزلہ کہتے ہیں کہ جو چیز بندہ کے حق میں خیر اور اصلح ہے اللہ تعالی پر اس کی رعایت واجب ہے ورنہ بخل لازم آۓ گا۔ ی معتزلہ کی کم عقلی اور بے ادبی ہے۔ بخل کے معنی حق واجب کے ندادا کرنے کے ہیں اور اللہ پر کسی کا کوئی حق نہیں وہ مالک اور مختار ہے اس پر نہ لطف واجب ہے اور نہ قہر جس کو چا ہے ہدایت دے اور جس کو چاہے گمراہ کرے ہدایت سے بڑھ کر کوئی خیر اور صلح نہیں مگر وہ بھی اس
پر واجب نہیں ۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
و فلوشاء لهديكم أجمعين » (سوره انعام آیت: ۱۳۹ ، پاره ۸)
اللہ تعالی اگر چاہتا تو سب کو ہدایت دے دیتا۔“ مگر کسی حکمت سے سب کو ہدایت نہیں دی معلوم ہوا کہ ہدایت دینا اس کے ذمہ لازم نہیں۔ اور اگر اپنی رحمت سے کسی کو ہدایت بھی دے دے تو اس پر ثواب دینا اس کے ذمہ واجب نہیں اگر وہ ثواب دے تو اس کا فضل ہے اور اگر عذاب دے تو اس کا عدل ہے اللہ تعالی فضل میں اور عدل میں مہر میں اور قبر میں ہر حال میں محمود اور مستحق ستائش ہے۔ غرض یہ کہ حق تعالی پر کسی کا کوئی حق نہیں ۔ ہاں خود اس ارحم الراحمین اور اکرم الاکرمین نے اپنی رحمت واسعہ سے اہل ایمان کو عزت افزائی کے لئے یہ فرمادیا ہے کہ اہل ایمان کا مجھ پر حق ہے میں ان کو جنت میں داخل کروں گا اور ان کو ثواب دوں گا ۔اہل ایمان کے لئے جنت اور ثواب کا لزوم اس کے وعدہ کی بنا پر ہے ہمارے استحاق کی بنا پرنہیں۔ ہدایت بھی اس کی رحمت اور عنایت تھی اس کی توفیق سے ایمان لاۓ اور اعمال صالحہ اس کے دیئے ہوئے اعضاء اور جوارح اور اسی کی دی ہوئی قدرت اور طاقت سے بجالاۓ یہ سب کچھ اسی کی مہربانی سے ہوا اور خود ہی ہدایت دے کر خود ہی جنت کا وعدہ فرمایا۔ "وذالك فضل الله يؤتيه من يشاء
عقیدہ ہفت دہم ...
خدا تعالی مالک اور مختار ہے
حق تعالی مالک اور مختار ہیں اور بندے اس کے مملوک اور غلام میں ہیں جو حکم اور تصرف ان میں فرماۓ وہ عین خیر اور صلاح اور تین حکمت ہے اور ظلم اور فساد سے پاک اور منزہ ہے۔ اگر وہ سب کو بلا قصور دوزخ میں ڈال دے اور ہمیشہ کا عذاب ان کو دے تو کوئی اعتراض کی جگہ نہیں اور نہ کسی غیر کی ملک میں یہ تصرف ہے جو ظلم اور ستم کی صورت پیدا کرے۔ بر خلاف ہماری املاک کو ہماری طرف منسوب کر دیا ہے ورنہ در حقیقت اسی مالک حقیقی کی املاک میں ہم اس کے عبد ماذون ہیں ۔ ہمارا تصرف ان املاک میں اس قدر جائز ہے جس قد راس مالک حقیقی نے تصرف کی اجازت دی ہے۔ لیکن اگر باوجود اس ملک مجازی کے ایک انسان اپنے کسی مملوک حیوان کو بلا وجہ ذبح کرے تو جائز ہے اور ظلم نہیں پس اسی طرح اگر حق تعالی بغیر کسی جرم اور قصور کے کسی کو عذاب دیں تو وہ ظلم نہ ہوگا اس لئے کہ ظلم کے معنی دوسرے کی ملک میں بغیر اجازت تصرف کرنے کے ہیں اور ظاہر ہے کہ کوئی شئے اللہ تعالی کی ملک سے خارج ہو ہی نہیں سکتی۔ اور "إن الله لا يظلم مثقال ذرۃ“ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی کا کوئی فعل صورۃ بھی ظلم اور ستم نہیں ہوسکتا یعنی اللہ تعالی کے کسی فعل کا حقیقی ظلم ہونا تو عقلاً محال اور ناممکن ہے لیکن ظاہر ادر صورت کے اعتبار سے بھی اس کا کوئی فعل اور کوئی تصرف ظلم نہیں ہوسکتا۔
ہاں اللہ تعالی نے جو ثواب اور عقاب کا وعدہ فرمایا ہے وہ قطعاً اور یقیناً پورا ہوگا۔ ہرگز اس میں تخلف نہیں ہوگا۔ "إن الله لا يخلف الميعاد و من أصدق من الله فيلا لیکن یہ یادر ہے کہ فرمانبرداروں سے جو ثواب کا وعدہ ہے اللہ تعالی اس وعدہ کو اپنے اختیار سے پورا فرماۓ گا۔ یعنی اہل ایمان کو اپنی قدرت اور اختیار اور رحمت اور مہربانی سے جنت میں داخل فرماۓ گا۔ مجبور ہو کر جنت میں داخل نہیں فرماۓ گا۔ قدرت اور اختیار کے ساتھ وعدہ کو پورا کرنا کمال ہے مجبور ہو کر وعدہ کا ایفاء کرنا کمال نہیں ایک بادشاہ اپنے وعدہ کو اپنے اختیار سے پورا کرتا ہے وعدہ کر کے مجبور نہیں ہو جا تا کہ اس کے خلاف نہ کر سکے پس کیا احکم الحاکمین اہل ایمان اور اہل کفر سے ثواب اور عقاب کا وعدہ کرنے کے لئے مجبور ہو گیا کہ اب اس کے خلاف کرنا اس کی قدرت سے بھی خارج ہو گیا۔ استغفر الله أنّ الله على كل شيء قدير بلاشبہ اللہ تعالی اس پر قادر ہیں کہ دوستوں کو جہنم اور دشمنوں کو جنت میں بھیج دیں لیکن ہرگز ہرگز ایسا کریں گے نہیں کیونکہ وعدہ فرمایا ہے ۔ "إن الله لا يخلف الميعاد ما پروریم دشمن پای کشیر
جرات کے کہ جرح کندر قضاۓ ما حق جل شانہ قیامت کے دن جب عیسی می سے ان لوگوں کی بابت دریافت فرمائیں گے۔ جنہوں نے حضرت عیسی یا اور ان کی والدہ کو خدا بنایا تھا تو عیسی علیہ السلام جواب عرض کریں گے اور اخیر میں یہ عرض کر میں گے ۔
وإن تعذبهم فإنهم عبادك و إن تغفرلهم فإنك أنت العزيز الحكيم ) (سورۃ المائدہ آیت: ۱۱۸، پارہ ۷ ) ”اگر آپ ان کوسزا د میں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ ان کو معاف فرمائیں تو آپ زبردست ہیں اور حکمت والے ہیں۔“ یعنی اے اللہ اگر آپ ان لوگوں کو عذاب دیں تو بلاوجہ اور بلاقصور سزا بھی دے سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ آپ کے بندے ہیں اور آپ ان کے مالک اور خدا ہیں۔ مالک کو اختیار ہے کہ اپنی ملک میں جو چاہے تصرف کرے اور اگر بالفرض آپ ان کو معاف فرمادیں تو آپ کا یہ معاف کرنا مجبوری کی بناء پر نہ ہوگا بلکہ قدرت اور اختیار سے ہوگا اس لئے کہ آپ عزیز مقتدر ہیں زبردست اور غالب ہیں مجرم آپ کے قبضہ قدرت سے نکل کر بھاگ نہیں سکتا۔ آپ اگر چاہیں تو سزا دیں اور اگر چاہیں تو معاف کر دیں اور چونکہ آپ حکیم مطلق ہیں آپ کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں اس لئے اگر آپ ان مجرموں کو معاف کر دیں گے تو آپ کا ان مجرموں کو معاف کر دینا بھی عین حکمت اور صواب ہوگا۔ بہر گا۔ بہر حال اگر آپ سزا کا فیصلہ فرمائیں تو وہ قادرانہ اور حکیمانہ فیصلہ ہوگا۔ اس مقام پر حضرت عیسی ﷺ نے ”فائك أنت العزيز الحكيم فرمایا جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ بڑے سے بڑے مجرم کی مغفرت اور معافی اللہ کی قدرت میں بھی داخل ہے اور عین حکمت اور صواب بھی ہے ۔ "لا يسئل عما يفعل وهم يسئلون“ ۔
مراتب صفات اور صفات متشابہات
خدا تعالی کی صفات جو قرآن اور حدیث میں مذکور ہیں وہ دوستم کی ہیں۔ ایک دو کہ جن کے معنی واضح اور ظاہر ہیں۔ جیسے علم اور قدرت اور ارادہ اور کلام وغیر ایسی صفات کو صفات محکمات اور واضحات کہتے ہیں اس بارہ میں اہل حق کا اتفاق ہے کہ ان صفات کے ظاہری معنی پر اعتقاد رکھنا ضروری ہے اور لازم ہے اور اس قسم کی صفات میں کسی قسم
کی تاویل جائز نہیں۔ دوسری قسم وہ ہے کہ جس کے معنی میں خفا اور ابہام ہے محض مدلول لفظی اور معنی لغوی سے کوئی علم قطعی اور یقینی حاصل نہیں ہوتا۔ راۓ اور قیاس کی وہاں مجال نہیں کشف اور الہام کی وہاں رسائی نہیں۔ جیسے وہ ( منہ ) اور یہ ( ہاتھ اورنفس اور عین ( آنکھ اور ساق اور قدم اور اصابع یعنی (انگلیاں ) اور عرش پر مستوی ہونا۔ اس قسم کی صفات کو صفات متشابہات کہتے ہیں اس قسم کی صفات کے بارہ میں تین گروہ ہو گئے ایک قدر می اور معتزلہ کا دوسرا مجسمہ اور مشبہہ کا تیسرا اہل سنت والجماعت کا۔
فرقہ مشبہہ
فرقہ مشبہ جس کوفرقہ مجسمہ بھی کہتے ہیں ۔اس نے ان آیات اور احادیث کو ظاہری معنی پرمحمول کرنے میں اس درجہ مبالغہ کیا کہ تشبیہ او تمثیل کی حد تک پہنچ گیا اور اس کا قائل ہو گیا کہ اللہ تعالی کے لئے اعضاء اور جوارح میں اس کے لئے منہ اور ہاتھ اور قدم وغیرہ ہیں اور جس طرح ایک بادشاہ تخت شاہی پر بیٹھتا ہے اس طرح اللہ تعالی عرش پر بیٹھتا ہے۔ گویا کہ اس فریق نے لیس کمثله شیء" اور "لم يكن له كفوا احد“ اور ولله المثل الأعلى‘ اس قسم کی آیات تنزیہ سے آنکھیں ہی بند کر لیں اور حماقت سے یا جہالت سے یا غفلت سے حق تعالیٰ شانہ کو مجسم سمجھ بھیٹا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں