Cricket

Islam

Post Page Advertisement [Top]

 حضرت معاویہ اور خلافت و ملوکیت 

چند سال پہلے جناب مولانا سید ابوالاعلی مودودی صاحب کی جو کتاب "خلافت وملوکیت" کے نام سے شائع ہوئی ہے اس کے بارے میں البلاغ کے اجراء کے وقت سے


ہمارے پاس خطوط کا تانتا بندھا رہا ہے ، ملک و بیرون ملک سے مختلف حضرات اس کتاب کے بارے میں ہمارا مؤقف پوچھتے ہی رہتے ہیں۔ اب تک ہم نے اس موضوع پر دو وجہ سے کچھ شائع کرنے سے گریز کیا تھا۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ البلاغ کا بنیادی مقصد اس قسم کی بحثوں سے میل نہیں کھاتا۔ ہماری کوشش روز اول سے یہ رہی ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی یہی رہے گی کہ البلاغ کی تمام تر توجہ ان بنیادی مسائل کی طرف رکھی جاۓ جو بحیثیت مجموعی پوری امت مسلمہ کو درپیش ہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ "خلافت و ملوکیت" کا جو حصہ اس وقت سوالات اور اعتراضات کا محور بنا ہوا ہے وہ ایک ایسے مسئلے سے متعلق ہے جسے بحث و تمحیص کا موضوع بنانا بہ حالات موجودہ ہم کسی کے لئے بھی نہیں مناسب سمجھتے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیهم اجمعین کے بارے میں ہمارا اجمالی عقیدہ یہ ہے کہ زمین و آسمان کی نگاہوں نے انبیاء علیهم السلام کے بعد ان سے زیادہ مقدس اور پاکیزہ انسان نہیں دیکھے۔ حق و صداقت کے اس مقدس قافلے کا ہر فرد اتنا بلند کردار اور نفسانیت سے اس قدر دور تھا کہ انسانیت کی تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ اور اگر کسی سے کبھی کوئی لغزش ہوئی بھی ہے تو اللہ تعالی نے اسے معاف فرما کر ان کے جنتی ہونے کا اعلان فرما دیا ہے۔ رہ گئی یہ بات کہ ان کے باہمی اختلافات میں کون حق پر تھا؟ اور کس سے کس وقت کیا غلطی سرزد ہوئی تھی؟ سو اس قسم کے سوالات کا واضح جواب قرآن کے الفاظ میں یہ ہے:

تلك امة قد خلت لها ماكسبت ولكم ما كسبتم ولا تسئلون


عماكانوا يعملون یہ ایک امت تھی جو گذر گئی۔ ان کے اعمال ان کے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے اور تم سے نہ پو چھا جاۓ گا کہ انہوں نے کیا عمل کیا تھا؟


ان دو باتوں کے پیش نظر ہم اب تک نہ صرف اس موضوع پر قلم اٹھانے بلکہ خلافت وملوکیت" کا مطالعہ کرنے سے بھی گریز کرتے رہے لیکن افسوس یہ ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد وہ فتنہ پوری آب و تاب کے ساتھ کھڑا ہو گیا جس سے بچنے کے لئے ہم نے یہ طرز عمل اختیار کیا تھا۔ پچھلے دنوں اس کتاب کے مباحث دینی حلقوں کا موضوع بحث بنے رہے۔ اور اس کے موافق و مخالف تحریروں کا ایک انبار لگ گیا۔ ادھر ہمیں اس کتاب کے مطالعے اور اس کے بہت سے قارئین سے تبادلۂ خیال کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ جن حضرات نے اسے عقیدت اور احترام کے ساتھ پڑھا ہے ان کے دل میں ایسی شدید غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں جن کا دور ہونا ضروری ہے ، ان حالات میں اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ افراط و تفریط سے ہٹ کر خالص علمی اور تحقیقی انداز میں مسئلے کی حقیقت واضح کر دی جاۓ۔ اس ضرورت کا احساس اس مقالے کی شان نزول ہے۔ اس مقالے کو منظر عام پر لانے کے لئے ہم نے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے جب کہ اس موضوع پر بحث و مناظرہ کی گرما گرمی دھیمی پڑ رہی ہے۔ اور فریقین کی طرف سے اس کتاب کی حمایت و تردید میں اچھا خاصا مواد سامنے آچکا ہے مقصد صرف یہ ہے کہ اپنے قارئین کو بحث و مباحثہ کی اس فضاء سے آزاد ہو کر سوچنے کی دعوت دی جاۓ جو حقیقت پسندی کے جذبہ کے لئے زہر قاتل ہوا کرتی ہے

class="poetryContent" dir="rtl" style="text-align: right;">





<جن حضرات نے خلافت و ملوکیت کا مطالعہ کیا ہے ہمارا اصل مخاطب وہ ہیں اور ہم نہایت دردمندی کے ساتھ یہ گذارش کرتے ہیں کہ وہ اس مقالے کا بحث و مباحثہ کے بجاۓ افہام و تفہیم کے ماحول میں مطالعہ فرمائیں، ہمیں اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ اگر ان معروضات کو اسی جذبے کے ساتھ پڑھا گیا تو یہ مضمون تطویل بحث کا سبب نہیں بنے گا بلکہ انشاء الله افتراق و انتشار کی موجودہ کیفیت میں کی ہی آئے گی

بحث کیوں چھیڑی گئی؟


ہمارے لئے سب سے پہلے تو یہ بات بالکل نا قابل فہم ہے کہ اس پر فتن دور میں مشاجرات صحابہ کی اس بحث کو چھیڑنے کا کیا موقع تھا؟ امت مسلمہ کو اس وقت جو بنیادی مسائل درپیش ہیں اور جتنا بڑا کام اس کے سامنے ہے ، مولانا مودودی صاحب یقینا ہم سے زیادہ اس سے واقف ہوں گے۔ اس اہم کام کے لئے جس یکسوئی اور یک جہتی کی ضرورت ہے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں کون نہیں جانتا کہ آج کی دنیا میں دولت و حکومت پر اور علمی اور فکری مرکزوں پر ذہنوں میں انقلاب پیدا کرنے والے نشرواشاعت کے دور رس رسائل پر تمام تر قبضہ یا ان لوگوں کا ہے جو کھلے طور پر دشمن اسلام ہیں اور آپس کے ہزاروں اختلاف کے باوجود اپنا سب سے بڑا خطرہ اسلام کو سمجھے ہوۓ ہیں اور اس کے مقابلے میں متحد ہیں یا پھر کچھ ایسے ہاتھوں میں ہے جو مسلمان کہلانے کے باوجود ان سے ایسے مرعوب ہیں کہ اسلام کی سب سے بڑی خدمت اس کو سمجھتے ہیں کہ اس کو کھینچ تان کر کسی طرح ان آقاؤں کی مرضی کے مطابق بنا دیا جائے۔ ان حالات میں اسلام دشمن عناصر کا مقابلہ کرنے کے لئے اگر کوئی قوت اہل حق کے پاس ہے تو وہ صرف ان کا باہمی اتحاد و اتفاق اور اجتماعی کوشش ہے۔ اس کے لئے کیا یہ ضروری نہیں کہ آپس کے سابقہ اختلافات کو بھی ایک خاص دائرہ میں محدود کر کے ان سب کی پوری طاقت اس محاذ پر صرف ہو جس طرف سے کھلے کفر و الحاد کی یلغار ہے۔ اور کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ اس دور میں ملت کی فکری اور عملی توانائیاں غیر ضروری یا ثانوی اہمیت کے مسائل پر صرف کرنے کے بجاۓ ان بنیادی مسائل پر خرچ کی جائیں جو اس وقت عالم اسلام کے لئے زندگی اور موت کے مسائل ہیں۔ جہاں تک اسلام کے نظام خلافت کی تشریح و توضیح کا تعلق ہے ، بلاشبہ وہ وقت کی بڑی اہم ضرورت تھی اور اس موضوع پر مولانا نے بھی خلافت و ملوکیت" کے ابتدائی تین جواب میں بحیثیت مجموعی بدی قابل قدر کوشش فرمائی ہے۔ لیکن موجودہ وقت کی ضرورت کے لئے اتنا واضح کر دیا بالکل کافی تھا کہ خلافت کے کہتے ہیں ؟ وہ کس طرح قائم ہوتی ہے؟ اس میں مقنہ عدلیہ اور انتظامیہ کے حدود اختیار کیا ہوتے ہیں؟ اور راعی و رعیت کے تعلقات کی  نوعیت کیا ہوتی ہے؟ رہی یہ بحث کہ تاریخ اسلام میں خلافت ملوکیت میں کس طرح ہوئی؟ اور اس کی ذمہ داری کس کس پر عائد ہوتی ہے؟ سو یہ خالصتاً ایک ایسی تاریخی بحث ہے جس کی تحقیق ایک علمی نکتہ آفرینی تو کہلا سکتی ہے لیکن اس سے موجودہ دور کے مسلمانوں کا کوئی قابل ذکر فائدہ متعلق نہیں ہے۔ خاص طور سے اس لئے بھی کہ یہ موضوع کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس پر ماضی میں کسی نے بحث نہ کی ہو۔ یا اس کی وجہ سے علم تاریخ میں کوئی نا قابل برداشت خلا پایا جا تا ہو۔ آج سے کم و بیش پانچ سو سال پہلے علامہ ابن خلدون جیسے عالمگیر شہرت کے مؤرخ نے اس مسئلے پر مفصل بحث کی ہے اور اس علمی خلاء کو نہایت سلامت فکر کے ساتھ پر کر دیا ہے انہوں نے اپنے شہرہ آفاق مقدے کے تیسرے باب میں خلافت و ملوکیت پر بڑی مبسوط بحث کی ہے اور اس باب کی تھیں ویں فصل کا تو عنوان ہی یہ ہے کہ:

class="poetryContent" dir="rtl" style="text-align: right;">

في انقلاب الخلافة الى الملك خلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہونے کا بیان اس فصل میں انہوں نے اپنے مخصوص سلجھے ہوۓ انداز میں اس انقلاب کے اسباب بھی بیان کر دیئے ہیں، تاریخ اور بالخصوص تاریخ اسلام کے واقعات اور اس کے اتار چڑھاؤ پر ابن خلدون سے زیادہ نظر رکھنے کا دعوی اس دور میں شاید ہی کسی کو ہو ان کے افکار کے ترجمے بھی ہو چکے ہیں اور تمام مسلمان اور غیر مسلم مؤرخین تاریخ اور فلسفہ تاریخ میں ان کے مقام بلند کے معترف میں اپنی اس بحث میں مشاجرات صحابہ کے دریاۓ خون سے وہ نمایت سلامتی کے ساتھ گذرے ہیں۔ لذا موجودہ زمانہ میں اس مسئلے کی کھود کرید اتنی ہی مضر ہے جتنی بخت نصر کے حملے کےت یہودیوں کی یہ بحث کہ حضرت مسیح کے فضلات پاک تھے یا ناپاک؟ یا تاتاریوں کی یلغار کے وقت اہل بغداد کی یہ تحقیق کہ حضرت علی افضل تھے یا حضرت معاویہ! مولانا مودودی صاحب نے اس بجٹ کو پھیرنے کی وجہ جواز یہ بیان فرمائی ہے کہ : آج پاکستان میں تمام ہائی اسکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم  اسلامی تاریخ اور علم سیاست کے متعلق اسلامی نظریات پڑھ رہے ہیں۔

ابھی کچھ مدت پہلے پنجاب یونیورسٹی کے ایم ۔ اے سیاسیات کے امتحان میں یہ سوالات آۓ تھے کہ قرآن نے ریاست کے متعلق کیا اصول بیان کئے ہیں؟ عمید رسالت میں ان اصولوں کو کس طرح عملی جامہ پہنایا گیا۔ خلافت کیا چیز تھی اور یہ ادارہ بادشاہی میں کیوں اور کیسے تبدیل ہوا ؟ اب کیا معترض حضرات چاہتے ہیں کہ مسلمان طلباء ان سوالات کے وہ جوابات دیں جو مغربی مصنفین نے دیئے ہیں؟ یا نا کافی مطالعہ کے ساتھ خود الٹی سیدھی رائیں قائم کریں؟ یا ان لوگوں سے دھوکا کھائیں جو تاریخ ہی کو نہیں اسلام کے تصور خلافت تک کو مسخ کر رہے ہیں ؟ الخ» له لیکن ہمارا خیال ہے کہ مولانا جب بحث و مباحثہ کی موجودہ فضا سے ہٹ کر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے تو انہیں خود اپنا یہ عذر کمزور محسوس ہو گا۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ مسلمان طلباء ان سوالات کے کیا جواب دیں؟ تو اس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ انہیں وہ جواب دینا چاہیے جو ابن خلدون نے مقدمہ میں دیا ہے اور جس کا ترجمہ ان کے نصاب میں داخل بھی ہے۔ اسے چھوڑ کر مغربی مصنفین یا کسی اور کی طرف وہ اسی وقت رجوع کریں گے جب کہ انہیں از خود بھٹکنے یا گمراہ ہونے کی خواہش ہو اور ظاہر ہے کہ اس جب کہ از بلکنے یا گمراہ ہونے کی ہو اور ظاہر ہے کہ خواہش کی موجودگی میں کوئی کتاب ان کی مدد نہیں کر سکے گی۔ مولانا کی یہ بات بلا شبہ معقول ہے کہ :

hazrat muawiya and hazrat ali

اگر ہم صحت نقل اور معقول و مدلل اور متوازن طریقے سے اس تاریخ کو خود بیان نہیں کریں گے اور اس سے صحیح نتائج نکال کر مرتب طریقے سے دنیا کے سامنے پیش نہیں کریں گے تو مغربی مستشرقین اور غیر معتدل ذہن و مزاج رکھنے والے مسلمان مصنفین جو اسے نہایت غلط رنگ میں پیش کرتے رہے ہیں اور آج بھی پیش کر رہے ہیں مسلمانوں کی نئی نسل کے دماغ میں اسلامی تاریخ ہی کا نہیں بلکہ اسلامی حکومت اور اسلامی نظام  زندگی کا بھی بالکل غلط تصور بٹھا دیں گے “ کے لیکن ہمیں اس سلسلہ میں چند باتیں عرض کرنی ہیں۔ ا۔ مولانا نے اس فقرے میں دو خطرات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک یہ کہ تاریخ کو غلط رنگ میں پیش کرنے والے اس کے ذریعہ اسلامی حکومت اور اسلامی نظام زندگی کا بھی بالکل غلط تصور بٹھا دیں گے۔ دوسرے یہ کہ اس سے خود اسلامی تاریخ کا غلط تصور سامنے آۓ گا۔ جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے سو اگر یہ لوگ ہماری تاریخ سے ہمارے نظام حکومت اور ہمارے نظام زندگی کا استنباط کرنے کی حماقت کریں گے تو ہمارا صحیح جواب یہ ہو گا کہ ہمارا نظام حکومت اور ہمارا نظام زندگی" تاریخ کی عام روایات سے نہیں ، قرآن سے اور ان حادیث سے و آثار سے مستنبط ہے جو جرح و تعدیل کی کڑی شرائط پر پوری اترتی ہیں۔ ہمارے نظام زندگی کو سمجھتا ہے تو قرآن و حدیث سے اور فقہ و کلام سے سمجھو خود مولانا مودودی بھی اس بات کو تسلیم فرماتے ہیں کہ ”حرام و حلال فرض و واجب اور مکروہ و مستحب جیسے اہم شرعی امور کا فیصلہ" اور یہ فیصلہ کہ ”دین میں کیا چیز سنت ہے اور کیا چیز سنت نہیں ہے“ عام تاریخی روایات سے نہیں ہو سکتا۔ لہذا ہمارے لئے آخر یہ کیسے جائز ہو گا کہ اپنے نظام زندگی کے غلط تصور کو ختم کرنے کے لئے ہم خود ان لوگوں کی اس اصولی غلطی کا اعادہ کریں اور اپنے نظام زندگی کا صحیح تصور ثابت کرنے کے لئے ان کی توجہ قرآن و حدیث کی طرف منعطف کرانے کے بجاۓ خود بھی تاریخی بحثوں میں الجھ جائیں۔؟ رہ گئی دوسری بات کہ اگر ہم نے خود صحت نقل کے ساتھ اپنی تاریخ کو مرتب نہ کیا تو یہ لوگ ہماری تاریخ کا نہایت غلط تصور ذہنوں میں بٹھا دیں گے۔ سو یہ بات بلاشبہ بالکل درست ہے اور فی الواقع اس کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو تحقیق و نظر کی چھلنی میں چھان کر اس طرح مرتب کریں کہ وہ زیادہ سے زیادہ اصلی صورت میں لوگوں کے سامنے آ سکے۔ لیکن اول تو ہم نہایت ادب کے ساتھ یہ گذارش کریں گے کہ مولانا مودودی صاحب نے خود ہماری تاریخ کا جو تصور دے دیا ہے اور ان کی کتاب کے تاریخی حصے سے عہد صحابہ و


تابعین کا جو مجموعی تاثر قائم ہوتا ہے بجائے خود انتہائی غلط اور خطرناک تاثر ہے اور ہم سے مجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ دوسرے لوگ اس سے زیادہ غلط تاثر اور کیا دے سکتے ہیں؟ دو سرے مولانا خود ہی غور فرمائیں کیا یہ عظیم کام اتنی آسانی سے عمل میں آسکتا ہے کہ خلافت و ملوکیت کی خالص احکامی بحث کے ضمن میں اس قدر سرسری طور پر اسے انجام دیا جائے ؟ اگر ہمیں اپنی تاریخ کو زیادہ سے زیادہ اصلی شکل میں پیش کر کے دلوں کو اس پر مطمئن کرتا ہے تو محض چند یکطرفہ روایات کو جمع کر دینے سے کچھ حاصل نہ ہو گا اس کے بجائے ہمیں تحقیق و تنقید کے اصول مدلل طریقے سے معین کرنے ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر روایت کے بارے میں معقول دلائل کے ساتھ یہ بتانا ہو گا کہ ہم نے اس کی مخالف روایات کو چھوڑ کر اسے کیوں اختیار کیا ہے ؟ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر آپ طبری، ابن کثیر اور ابن اثیر کے حوالوں سے واقعات کا ایک تسلسل قائم فرما کر دکھلائیں اور دوسرے لوگ نہ ان کی کتابوں کے حوالوں سے واقعات کا دوسرا تسلسل ثابت کر دیں تو اس سے وہ نئی نسل آخر کیسے مطمئن ہو سکے گی جس کی گمراہی کا آپ کو خوف ہے؟ اس لئے ہمارے رائے یہ ہے کہ تاریخ اسلام اور خاص طور سے اس کے مشاجرات صحابہ والے حصے کی تحقیق کا یہ کام یا تو اس پر فتن دور میں چھیڑا نہ جائے کیونکہ امت کے سامنے اس سے زیادہ اہم مسائل ہیں جن کے مقابلے میں یہ کام کوئی اہمیت نہیں رکھتا یا انفرادی رائے قائم کرنے کے بجائے متوازن فکر رکھنے والے اہل بصیرت علماء کی ایک جماعت اس کام کو انجام دے۔ اور تاریخ کی تحقیق و تنقید کے اصول طے کرنے میں زیادہ سے زیادہ علماء کا مشورہ اور تعاون حاصل کرے۔ اس کے بغیر اس سلسلے کی انفرادی کوششیں مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگیوں کو نئے میدان فراہم کرنے کے سوا کوئی خدمت انجام نہیں دے سکیں گی۔ لہذا موجودہ حالات میں اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ اس معاملے میں ابن خلدون جیسے اہل بصیرت اور متوازن الفکر مؤرخین کی اس تحقیق پر اعتماد کیا جاۓ جو انہوں نے تاریخ اسلام کے اولین مآخذ کو اچھی طرح کھنگالنے کے بعد پیش کی ہے۔ اس موضوع پر اگر کوئی انفرادی کوشش ہو بھی تو وہ اس تحقیق کو بنیاد بنا کر اسے مزید وسعت دے اور کوئی ایسا نتیجہ نکال کر منظر عام پر نہ لائے جو صدیوں کے مسلمات کے خلاف ہو جس سے ذہنوں میں خلجان پیدا ہو اور افتراق اور انتشار کا دروازہ کھلے۔ اس مختصر گذارش کے بعد ہم "خلافت و ملوکیت" کی ان باتوں کی طرف آتے ہیں ؟  ماری نگاہ میں سخت قابل اعتراض ہیں۔ قاعدے کا تقاضا تو یہ تھا ہم پہلے صحابہ کرام کی عدالت اور تاریخی روایات کی حیثیت سے متعلق ان اصولی مباحث پر گفتگو کرتے جو مولانا نے اپنے معترضین کے جواب میں چھیڑے ہیں ، اس کے بعد جزئیات کی طرف آتے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ صحابہ کی عدالت وغیرہ کے بارے میں جو اصولی بات ہم عرض کرنا چاہتے ہیں مولانا مودودی صاحب کی اس کتاب کے بعد وہ شاید اس وقت تک مولانا کے قارئین کے دلوں میں بیٹھ نہ سکے جب تک مولانا کے بیان کردہ واقعات پر تبصرہ نہ کیا جاۓ خلافت و ملوکیت کو پڑھنے والوں میں اکثریت ایسے حضرات کی ہوگی جن کے لئے یہ ممکن نہیں ہو تاکہ وہ مولانا کے بیان کردہ ہر واقعے کو اس کے اصل مآخذ میں دیکھ کر یہ فیصلہ کریں کہ یہ واقعہ جو تاثر دے رہا ہے وہ فی الواقع صحیح ہے یا نہیں۔ اس کے بجاۓ یقینا بیشتر حضرات نے مولانا مودودی صاحب کی نقل پر اعتماد کر کے اس کتاب سے وہی تاثر لیا ہو گا جو یہ کتاب دے رہی ہے ایسی حالت میں جب تک ان واقعات کی حقیقت نہ بتائی جاۓ۔ عدالت صحابہ کی بحث "خلافت و ملوکیت" کے ان قارئین کے دلوں میں نہیں اتر سکے گی جنہوں نے اس کتاب کو عقیدت و محبت کے جذبات کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس لئے ہم نے یہ مناسب سمجھا کہ پہلے ان جزئی واقعات ہی کو سامنے لے آئیں جن پر ہمیں کچھ عرض کرتا ہے۔

class="poetryContent" dir="rtl" style="text-align: right;">

پوری کتاب پر کماحقہ تبصرہ کرنا تو چند در چند وجوہ کی بناء پر ہمارے لئے ممکن نہیں ہے۔ ہم یہاں صرف ان اعتراضات کو زیر بحث لائیں گے جو مودودی صاحب نے حضرت معاویہ پر وارد کئے ہیں ، حضرت عثمان کے بارے میں مولانا مودودی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے وہ بھی کئی مقامات پر اپنے اسلوب بیان اور کئی جگہوں پر اپنے مواد کے لحاظ سے بہت قابل اعتراض ہے لیکن حضرت معاویہ کے بارے میں تو وہ انتہائی خطرناک حد تک پہنچ گئے ہیں۔ اور ہماری پر خلوص دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں اس سے واپس لوٹنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ اسی جذبے کے تحت ہم نے یہاں صرف ان اعتراضات کو اپنی گفتگو کے لئے چنا ہے جو انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر وار دکئے ہیں۔ ہم ایک بار پھر یہ گذارش کریں گے کہ ہماری ان معروضات کو بحث و مباحثہ کی فضا سے ہٹ کر ٹھنڈے دل کے ساتھ پڑھا جاۓ اور چونکہ معاملہ صحابہ کرام کا ہے اس لئے اس نازک معاملے میں ذہن کو جماعتی تخرب یا شخصی اعتقاد کی قیود سے بالکل آزاد کر لیا جائے۔ امید ہے کہ ہماری یہ دردمندانہ گزارش قابل قبول ہوگی


ا۔ بدعت کا الزام


” قانون کی بالا تری کا خاتمہ" کے عنوان کے تحت مولانا لکھتے ہیں۔ ان بادشاہوں کی سیاست دین کے تابع نہ تھی اس کے تقاضے وہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے پورے کرتے تھے اور اس معاملے میں طلال و حرام کی تمیز روانہ رکھتے تھے مختلف خلفاے بنی امیہ کے عہد میں قانون کی پابندی کا کیا حال رہا اسے ہم آگے کی سطور میں بیان کرتے ہیں۔


حضرت معاویہ کے عہد میں یہ پالیسی حضرت معاویہ ہی کے عہد سے شروع ہو گئی تھی۔“ اس ”پالیسی" کو ثابت کرنے کے لئے مولانا نے چھ سات واقعات لکھے ہیں۔ پہلا واقعہ وہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ :


”امام زہری کی روایت ہے کہ رسول اللہ " اور چاروں خلفاۓ راشدین کے عہد میں سنت یہ تھی کہ نہ کافر مسلمان کا وارث ہو سکتا ہے۔ نہ مسلمان کافر کا حضرت معاویہ نے اپنے زمانہ حکومت میں مسلمانوں کو کافر کا وارث قرار دیا اور کافر کو مسلمان کا وارث قرار نہ دیا حضرت عمربن عبد العزیز نے اگر اس بدعت کو ختم کیا مگر ہشام بن عبدالملک نے اپنے خاندان کی روایت کو پھر بحال کر دیا۔“ (ص۔ ۱۷۳)


اس واقعہ کے لئے مولانا نے البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ ۱۳۹‘ اور جلد 9 صفحہ ۲۳۲ کا حوالہ دیا ہے لہذا پہلے اس کتاب کی اصل عبارت ملاحظہ فرما لیجئے۔


حدثني الزهري قال: كان لا يرث المسلم الكافرولا الكافر المسلم في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وابی بکر و عمر وعثمان و على فلما ولى الخلافة معاوية ورث المسلم من الكافر ولم يورث الكافر من المسلم واخذ بذالک  الخلفاء من بعده فلما قام عمر بن عبدالعزيز راجع السنة الاولى و تبعه فی ذلک یزیدبن عبدالملک فلما قام هشام اخذ بسنةالخلفاء يعنى انه ورث المسلم من الکافر۔"


”امام زہری فرماتے ہیں کہ آنحضرت اور خلفائے اربعہ کے عہد میں نہ مسلمان کافر کا وارث ہو تا تھا نہ کافر مسلمان کا پھر جب معاویہ خلیفہ ہے تو انہوں نے مسلمان کو کافر کا وارث قرار دیا اور کافر کو مسلمان کا وارث نہ بنایا ان کے بعد خلفاء نے بھی مینی معمول رکھا پھر جب عمر بن عبد العزيز خلیفہ ہوۓ تو انہوں نے پہلی سنت کو لوٹا دیا ۔ اور یزید بن عبدالملک نے بھی ان کی اتباع کی ، پھر جب ہشام آیا تو اس نے خلفاء کی سنت پر عمل کیا یعنی مسلمان کو کافر کا وارث قرار دے دیا۔ اب اصل صورت حال ملاحظہ فرمایئے واقعہ اصل میں یہ ہے کہ یہ مسئلہ عہد صحابہ سے مختلف فیہ رہا ہے۔ اس بات پر تو اتفاق ہے کہ کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا، لیکن اس میں اختلاف ہے کہ مسلمان کافر کا وارث ہو سکتا ہے یا نہیں اس اختلاف کی تشریح علامہ بدرالدین عینی رحمتہ اللہ علیہ کی زبانی سنئے۔ واما المسلم فهل يرث من الكافرام لا فقالت عامة الصحابة رضى الله تعالى عنهم لا يرث وبه اخذ علماءنا والشافعي وهذا استحسان والقياس أن يرث وهو قول معاذ بن جبل ومعاوية بن ابی سفیان وبه اخذ مسروق والحسن و محمدبن الحنفية ومحمدبن علی بن حسین رہی یہ بات کہ مسلمان کافر کا وارث ہو سکتا ہے یا نہیں، سو عام صحابہ کرام کا قول تو میں ہے کہ وہ وارث نہ ہو گا اور اس کو ہمارے علماء خفیہ اور امام شافعی نے اختیار کیا ہے لیکن یہ استحسان ہے۔ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ وارث ہو اور میں حضرت معاذ بن جبل اور حضرت معاویہ  کا مذہب ہے اور اس کو مسروق حسن محمد بن حنفیہ اور محمد بن علی بن حسین نے اختیار کیا ہے۔“ اور حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں لیے

اخرج ابن ابي شيبة من طريق عبدالله بن معقل قال مارايت قضاء احسن من قضاء قضى به معاوية نرث اهل الكتاب ولايرثوناكما يحل النكاح فيهم ولا يحل لهم و به قال مسروق وسعيد بن المسيب وابراهيم النخعی و اسحاق “


”ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداللہ بن معقل سے نقل کیا ہے ، وہ فرماتے تھے کہ میں نے کوئی فیصلہ حضرت معاویہ کے اس فیصلے سے بہتر نہیں دیکھا کہ ہم اہل کتاب کے وارث ہوں اور وہ نہ ہوں یہ ایسا ہی ہے جیسے مارے لئے ان کی عورتوں سے نکاح حلال ہے مگر ان کے لئے ہماری عورتوں سے نکاح حلال نہیں۔ اور یہی مذہب مسروق، سعید بن المسیب


ابراہیم تھی اور اسحاق رحمتہ اللہ کا ہے۔" پھر حافظ ابن حجر نے حضرت معاذ بن جبل کے حوالے سے حضرت معاویہ کے اس مسلک کی تائید میں ایک مرفوع حدیث بھی نقل کی ہے۔


"عن معاذ " قال يرث المسلم من الكافر من غير عكس واحتج بانه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول الاسلام يزيد ولا ينقص وهو حديث اخرجه ابوداؤدوصححه الحاكم “ حضرت معاذ فرماتے تھے کہ مسلمان کافر کا وارث ہو گا مگر اس کا عکس نہیں ہو گا وہ دلیل یہ پیش کرتے تھے کہ انہوں نے خود رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اسلام (انسانی حقوق میں زیادتی کرتا ہے ، کمی نہیں کرنا۔ یہ حدیث امام ابو داؤد نے روایت کی ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا  یہ تمام صورت حال آپ کے سامنے ہے اسے ذہن میں رکھ کر مولانا مودودی کی مذکورہ عبارت کو ایک بار پھر پڑھئے مولانا نے یہ واقعہ اس طرح ذکر کیا ہے کہ گویا حضرت معاویہ اس مسئلے میں بالکل منفرد ہیں اور کسی اجتہادی راۓ کی بناء پر نہیں بلکہ (معاذاللہ) کسی سیاسی غرض سے انہوں نے یہ "بدعت" جاری کی ہے۔ اور اس طرح ” قانون کی بالاتری کا خاتمہ کر ڈالا ہے لیکن آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ یہ سرا سر فقہی مسئلہ ہے جس میں وہ تھا بھی نہیں ہیں بلکہ صحابہ کرام میں سے حضرت معاذ بن جبل جیسے جلیل القدر صحابی (جن کے علم و فقہ پر خود آنحضرت کی شہادت موجود ہے) اور تابعین میں سے مسروق حسن بصری ابراہیم تھی محمد بن حنفیہ محمد بن علی بن حسین اور اسحاق بن راہویہ جیسے فقہاء بھی ان کے ساتھ ہیں ۔ حضرت معاویہ کا یہ فقہی مسلک بلاشبہ بعد کے فقہاء نے اختیار نہیں کیا ہم خود بھی اس مسلک کے قائل نہیں ہیں ، لیکن ساتھ ہی ہمارا اعتقاد یہ بھی ہے کہ اگر حضرت معاویہ اپنے اس اجتہاد میں بالکل تھا ہوں تب بھی اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ ان کے اس اجتہاد کو "بدعت" کہا جاۓ یا اس سے یہ نتیجہ نکالا جاۓ کہ انہوں نے سیاست کو دین پر غالب رکھنے اور حلال و حرام کی تمیز کو مٹانے کی پالیسی شروع کر دی تھی“ کیا حضرت علی سے اختلاف کر کے حضرت معاویہ کو اتنا بھی حق نہیں رہا کہ وہ کسی شرعی مسئلے میں اپنے علم وفضل سے کام لے کر کوئی اجتہاد کر سکیں؟ جب کہ وہ فقہاء میں سے ہیں اور ان کے بارے میں صحیح بخاری میں یہ روایت موجود ہے کہ : ۔


قيل لابن عباس هل لک فی امیرا منين معاوية؟ مااوتر الأبواحدة قال : أصاب انه فقيه *


”حضرت ابن عباس سے کہا گیا کہ امیرالمومنین معاویہ ہمیشہ ایک رکعت وتر پڑھتے ہیں کیا آپ اس معاملے میں کچھ فرمائیں گے؟ "حضرت ابن عباس نے جواب دیا ! انہوں نے درست کیا وہ فقیہ ہیں“  ی وجہ ہے کہ وہ امام زہری جن کا مقولہ مولانا مودودی صاحب نے نقل کیا ہے حضرت معاویہؓ سے اس معاملے میں اختلاف رکھنے کے باوجود ان کے اس فعل کو "بدعت" نہیں کہتے بلکہ یہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہوۓ تو انہوں نے :


، راجع السنة الاولى اه ” پہلی سنت کو لوٹا دیا "


اس میں ”پہلی سنت کا لفظ اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ وہ دو سری سنت جو حضرت معاویہ نے جاری رکھی تھی وہ بھی سنت ہی تھی بدعت نہ تھی لیکن حیرت ہے کہ مولانا مودودی صاحب ان کے اس جملے کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں : حضرت عمربن عبدالعزیز نے آکر اس بدعت کو موقوف کیا۔" (ص ۱۷۳)

(۲) نصف دیت کا معاملہ


حضرت معاویہ کے عہد میں ” قانون کی بالا تری کے خاتمے اور سیاست کو دین پر غالب رکھنے کی پالیسی کی دوسری شہادت مولانا مودودی نے یہ پیش کی ہے : ”حافظ ابن کثیر " کہتے ہے ہیں کہ دیت کے معاملے میں بھی حضرت معاویہ نے سنت کو بدل دیا سنت یہ تھی کہ معاہد کی دیت مسلمان کے برابر ہوگی مگر حضرت معاویہ نے اس کو نصف کر دیا ۔ اور باقی خود لینی شروع کر دی۔“(ص ۱۷۴۴۱۷۳)


اس میں اول تو خط کشیدہ جملہ نہ حافظ ابن کثیر کا ہے نہ امام زہری کا۔ بلکہ یہ خود مولانا کا ہے۔ (یہ نشاندہی ہم نے اس لئے کی ہے کہ مولانا کی عبارت سے صاف یہ معلوم ہو تا ہے کہ یہ جملہ حافظ ابن کثیر کا ہے) البدایہ والنہایہ کی اصل عبارت یہ ہے :  وبه قال الزهري و مصت السنة ان دية المعاهدكلية المسلم . وكان معاوية أول من قصرها الى النصف واحدالنصف النفسة ر کورہ سند ہی سے امام زہری کا یہ قول ہم تک پہنچا ہے کہ ! سنت یہ چلی . آتی تھی کہ معاہد کی دیت مسلمان کی دیت کے برابر ہوگی اور حضرت معاویہ پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے اسے کم کر کے نصف کر دیا اور نصف اپنے واسطے لے لی۔ یہ درست ہے کہ یہ عبارت سرسری نظر میں بڑی مغالطہ انگیز ہے کیونکہ اس سے بادی النظر میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ نے باقی نصف دیت خود اپنے ذاتی استعمال میں لائی شروع کردی تھی ، لیکن کاش ! مولانا مودودی اس مجمل اور سرسری مقولے کو دیکھ کر حضرت معاویہ پر اتنا سنگین الزام عائد کرنے سے قبل صورت حال کی پوری تحقیق فرمالیتے ہمارا خیال ہے کہ اگر مولانا اس موقع پر شروح حدیث میں سے کسی بھی مستند کتاب کی مراجعت فرماتے تو کوئی غلط نمی باقی نہ رہتی۔ واقعہ اصل میں یہ ہے کہ حافظ ابن کثیر نے امام زہری کا یہ مقولہ نہایت اختصار اور اجمال کے ساتھ ذکر کیا ہے ان کا پورا مقولہ سامنے ہو تو بات بالکل صاف ہو جاتی ہے مشہور محدث امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں ان کا یہ مقولہ ابن جریج کی سند سے پوری تفصیل کے ساتھ درج کیا ہے اسے ملاحظہ فرمائیے :


"عن الزهدى قال كانت دية اليهودي والنصراني في رمن نبی الله صلى الله عليه وسلم مثل دية المسلم وابي بكر وعمر وعثمان رضی الله عنهم فلما كان معاوية اعطى اهل المقتول النصف والقى النصف في بيت المال قال ثم قضى عمر بن عبدالعزيز في النصف والقى ماكان جعل معاوية .


امام زہری فرماتے ہیں کہ یہودی اور نصرانی کی دیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مسلمان کی دیت کے برابر تھی ، حضرت ابو بکر، عمر اور  عثمان رضی اللہ عنہم کے عہد میں بھی ایسا ہی رہا۔ پھر جب حضرت معاویہ خلیفہ بنے تو آدھی دیت مقتول کے رشتہ داروں کو دی اور آدھی بیت المال میں داخل کر دی پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے دیت تو آدھی ہی رکھی۔ مر (بیت المال کا جو حصہ معاویہ نے مقرر کیا تھا وہ ساقط کر دیا ۔“ اس سے یہ بات تو صاف ہو گئی کہ حضرت معاویہ نے آدھی دیت خود لینی شروع نہیں کی تھی بلکہ بیت المال میں داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔ لہذا حافظ ابن کثیر نے امام زہری کا جو مقولہ نقل کیا ہے اس میں اخذ النصف لنفسه ( آدھی خود لینی شروع کردی) سے مراد بیت المال کے لئے لیتا ہے نہ کہ اپنے ذاتی استعمال کے لئے۔ اب یہ بات رہ جاتی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہد کی ریت مسلمان کے برابر کی تھی تو حضرت معاویہ نے اسے نصف کر کے باقی نصف کو بیت المال میں کیوں داخل کر دیا ؟ سو حقیقت یہ ہے کہ معاہد کی ریت کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف روایتیں مروی ہیں ، اس لئے یہ مسئلہ عہد صحابہ سے مختلف فیہ چلا آتا ہے۔ ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اس طرح منقول ہے کہ : عقل الكافر نصف دية المسلم ”کافر کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف ہوگی" چنانچہ اس حدیث کے پیش نظر حضرت عمر بن عبد العزیر اور امام مالک اس بات کے قائل ہیں کہ معاہد کی ریت مسلمان کی دیت سے نصف ہونی چاہئے اس کے برخلاف حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دية نمي دية مسلم ی کی دیت مسلمان کی دیت کے برابر ہے" سے چنانچہ امام ابو حنیفہ اور حضرت سفیان ثوری کا مسلک اس حدیث پر مبنی ہے اور وہ مسلمان اور معاہد کی دیت میں کوئی فرق نہیں کرتے۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چونکہ یہ دونوں روایتیں مروی ہیں اس لئے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد سے دونوں میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ آدھی دیت مقتول کے ورثاء کو دلوادی اور باقی نصف بیت المال میں داخل کرنے کا حکم دے دیا ۔ اس کی ایک عقلی وجہ بھی خود بیان فرمائی حضرت ربیعہ فرماتے ہیں کہ :

فقال معاوية ان كان اهله اصيبوا به فقد اصيب به بیت مال المسلمين فاجعلوا لبيت مال المسلمين النصف ولاهله النصف خمسمائة دينار ثم قتل رجل اخر من أهل الذمة فقال معاوية لوانا نظرنا الى هذا الذي يدخل بيت المال فجعلناه وضيعا عن المسلمين وعونالهم له *

حضرت معاویہ نے فرمایا کہ ڈی کے قتل سے اگر اس کے رشتہ داروں کو نقصان پہنچا ہے تو مسلمانوں کے بیت المال کو بھی نقصان پہنچا ہے (کیونکہ جو جز یہ وہ ادا کیا کرتا تھاوہ بند ہوگیا۔ تقی) لہذا دیت کا آدھا حصہ (پانچ سو دینار) مقتول کے رشتے داروں کو دے دو اور آدھا بیت المال کو اس کے بعد ذمیوں میں سے ایک اور شخص قتل ہوا تو حضرت معاویہ نے فرمایا کہ جو رقم ہم بیت المال میں داخل کر رہے ہیں ، اگر ہم اس پر غور کریں تو اس سے ایک طرف مسلمانوں کا بوجھ ہلکا ہو اور دوسری طرف یہ ان کے لئےاعانت بھی ہوئی۔ ایک مجتہد کو حق ہے کہ حضرت معاویہ کے اس اجتہاد سے علمی طور پر اختلاف کرے لیکن یہ اعتراف ہر غیر جانب دار شخص کو کرنا پڑے گا کہ حضرت معاویہ نے اس طرح   آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متعارض احادیث میں بس خوبی کے ساتھ تطبیق دی ہے وہ ان کے تفقہ اور علمی بصیرت کی آئینہ دار ہے۔ انصاف فرمائے کہ ان کے اس حسین فقہی اجتہاد کی تعریف کرنے کے بجاۓ اسے ” قانون کی بالا تری کا خاتمہ قرار دینا کتنا بڑا ظلم ہے؟ یہاں ایک بات اور واضح کر دینا مناسب ہو گا اور وہ یہ کہ اگر چہ امام زہری کا قول می ہے کہ حضرت معاویہ سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین ذمی کی دیت مسلمان کے برابر قرار دیتے آرہے تھے اور حضرت معاویہ نے پہلی بار اس میں تغیر کیا لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس بارے میں روایات بہت مختلف ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو حدیثیں تو ہم ابھی لکھ کر آئے ہیں ، حضرت عمر اور حضرت عثمان سے بھی اس معاملے میں مختلف روایات مروی ہیں ، بعض روایات میں تو یہاں تک ہے کہ ان کے عہد میں زی کی دیت مسلمان کی دیت سے ایک تہائی وصول کی جاتی تھی۔ مشہور محدث علامہ ابن الترکمانی تحریر فرماتے ہیں :وعمر وعثمان قد اختلف عنها اور حضرت عمر اور حضرت عثمان سے مختلف روایات مروی ہیں۔ اسی لئے امام شافعی نے بھی اسی ایک تہائی والے مسلک کو اختیار کیا ہے۔تے

(۳) مال غنیمت میں خیانت 

ایک اسی قسم کا اعتراض مولانا مودودی صاحب نے یہ کیا ہے کہ : ۔ مال غنیمت کی تقسیم کے معاملے میں بھی حضرت معاویہ نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے صریح احکام کی خلاف ورزی کی۔ کتاب وسنت کی روسے پورے مال غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال میں داخل ہونا چاہئے اور باقی چار حصے اس فوج میں تقسیم ہونا چاہئے جو لڑائی میں شریک ہوئی ہو۔ لیکن حضرت معاویہ نے حکم دیا کہ مال غنیمت میں سے چاندی سونا ان کے  لئے الگ نکال دیا جاۓ پھر باقی مال شری قاعدے کے مطابق تقسیم کیا جاۓ۔"(س : ۱۷۴)


اس اعتراض کی سند میں مولانا نے پانچ کتابوں کے حوالے دیئے ہیں جن میں سے ایک البدایہ والنہایہ صفحہ ۲۹ جلد ۸ کا حوالہ بھی ہے ہم یہاں اس کی اصل عبارت نقل کرتے ہیں :۔


وفي هذه السنة غزا الحكم بن عمرو نائب زیاد علی خراسان جبل الاسل عن امر زياد فقتل منهم خلقا كثيراوغنم أموالاً حمة فكتب اليه زياد:


ان اميرالمومنين قد جاء كتابه ان يصطفى له كل صفراء و بيضاء يعنى الذهب والفضة - يجمع كله من هذه الغنيمة لبيت المال فكتب الحكم بن عمرو : ان كتاب الله مقدم على كتاب اميرالمومنين، وانه والله لوكانت السماوات والارض على علو فاتقى الله يجعل له مخرجا ثم نادى في الناس ان اغدوا على قسم غنيمتكم فقسمها بينهم وخالف زيانا فيما كتب اليه عن معاوية وعزل الخمس كما امرالله ورسوله


اسی سال خراسان میں زیاد کے نائب حضرت حکم بن عمرڈ نے زیاد کے حکم سے جبل الاسل کے مقام پر جہاد کیا بہت سے آدمیوں کو قتل کیا اور بہت سامال غنیمت حاصل کیا تو زیا د نے انہیں لکھا کہ : امیرالمومنین کا خط آیا ہے کہ سونا چاندی ان کے لئے الگ کرلیا جاۓ اور اس مال تقیمت کا سارا سونا چاندی بیت المال کے لئے جمع کیا جاۓ۔ حکم بن عمرڈ نے جواب میں لکھا کہ اللہ کی کتاب امیرالمومنین کے خط پر مقدم ہے اور خدا کی قسم اگر آسمان و زمین کسی کے دشمن ہو جائیں اور وہ اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتا ہے پھر   انہوں نے لوگوں میں اعلان کیا کہ تم اپنے مال تخقیمت کو تقسیم کرنا شروع کردو' چنانچہ اس مال غنیمت کو انہوں نے لوگوں کے درمیان تقسیم کر دیا ۔ اور زیاد نے حضرت معاویہ کی طرف منسوب کر کے جو کچھ انہیں لکھا تھا۔ اس کی مخالفت کی اور مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق بیت المال کے لئے الگ کیا۔“


اس عبارت کا مولانا مودودی صاحب کی عبارت کے ساتھ مقابلہ فرمائیے تو مندرجہ ذیل فرق واضح طور پر نظر آئیں گے : 1) البدایہ والنہایہ کی اس عبارت میں صاف تصریح ہے کہ اس حکم کی رو سے حضرت معاویہ کی ذات کے لئے سونا چاندی نکالنے کا ارادہ نہیں تھا بلکہ بیت المال کے لئے نکالنا پیش نظر تھا۔ حافظ ابن کثیر حکم کے الفاظ صاف لکھ رہے ہیں کہ : ۔يجمع كله من هذه الغنيمة لبيت المال

” اس مال غنیمت میں سے سارا سونا چاندی بیت المال کے لئے جمع کیا جاۓ۔“ مگر مولانا مودودی اسی عبارت کے حوالے سے یہ تحریر فرماتے ہیں کہ : ۔ حضرت معاویہ نے حکم دیا کہ مال غنیمت میں سے چاندی سونا ان کےلئے الگ نکال لیا جاۓ۔“(س : ۱۷۴) ہمارا ناطقہ قطعی طور پر سر بگریباں ہے کہ اس تفاوت کی کیا تاویل کیا توجیہہ کریں؟" (۲) مولانا مودودی کی عبارت کو پڑھ کر ہر پڑھنے والا یہ تاثر لے گا کہ جن تواریخ کا مولانا نے حوالہ دیا ہے ان میں صراحت کے ساتھ حضرت معاویہ کا یہ حکم براہ راست منقول ہو گا اسی علم کو دیکھ کر مولانا نے یہ عبارت لکھی ہے لیکن آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ البدایہ والنہایہ میں اور اسی طرح باقی تمام تواریخ میں حضرت معاویہ کا براہ راست کوئی حکم منقول نہیں بلکہ زیاد نے ان کی طرف منسوب کر کے اپنے ایک نائب کو ایسا لکھا تھا اور یہ بات کسی تاریخ سے  ثابت نہیں ہے کہ حضرت معاویہ نے وا تحد زیاد کو ایسا لکھا تھا یا زیاد نے خواہ مخواہ ان کی طرف یہ غلط بات منسوب کر دی تھی؟ (۳) مولانا مودودی نے اس حکم کا تو ذکر فرمایا ہے لیکن یہ نہیں بتلایا کہ اس حکم کی تعمیل


سرے سے کی ہی نہیں گئی۔ چنانچہ اگر اصل کتابوں کی مراجعت نہ کی جاۓ تو ہر پڑھنے والا ہے مجھے گا کہ یقینا اس حکم کی تعمیل بھی کی گئی ہوگی۔ حالانکہ آپ نے دیکھا البدایہ والنہایہ میں صاف تصریح ہے کہ حضرت حکم بن عمرو نے اس مجمل حکم کی بھی تعمیل نہیں فرمائی۔ (۴) مولانا مودودی صاحب کی عبارت سے یہ مترشح ہو تا ہے کہ حضرت معاویہ نے یہ حکم مستقل طور سے جاری کر دیا ہو گا۔ حالانکہ اگر زیاد کو سچا مان لیا جاۓ تو بھی زیادہ سے زیادہ میں حکم ایک خاص جہاد سے متعلق تھا۔ گویا صورتحال تاریخ کی روشنی میں یہ ہے کہ زیاد نے اپنے ایک نائب کو خط لکھتے وقت یہ لکھا تھا کہ حضرت معاویہ نے لکھا ہے کہ جبل الاسل کے جہاد میں جو مال غنیمت ملا ہے اس میں سے سونا چاندی بیت المال کے لئے الگ کر لیا جاۓ۔ نائب کو زیاد کا یہ خط ملا مگر اس نے اس حکم کو کتاب اللہ کے خلاف سمجھ کر اس کی تعمیل نہ کی لیکن مولانا نے آگے پیچھے کی تمام باتوں کو چھوڑ دیا اور حضرت معاویہ پر مال غنیمت کی تقسیم کے معاملہ میں کتاب وسنت کی صریح خلاف ورزی کا الزام لگا کر براہ راست لکھدیا کہ :

class="poetryContent" dir="rtl" style="text-align: right;">



حضرت معاویہ نے حکم دیا کہ مال غنیمت میں سے سونا چاندی ان کے لئےانگ نکال لیا جاۓ۔

“ تاریخ کے اندر اس سلسلے میں جو کچھ لکھا ہے اسے ہم نے اوپر بعینہ نقل کر دیا ہے۔ اب مولانا مودودی کی عبارت سے قطع نظر کر کے اصل عبارت پر آپ غور فرمائیں گے تو ممکن ہے کہ ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو کہ اگر حضرت معاویہ کا یہ حکم شریعت کے مطابق تھا تو حضرت حکم بن عمرو نے جو خود صحابہ میں سے ہیں ، اس پر اتنی خفگی کا اظہار کیوں فرمایا ؟ اور اسے کتاب اللہ کے خلاف کیوں قرار دیا؟ اس شبہ کے جواب میں عرض ہے کہ جتنی تواریخ ہم نے دیکھی ہیں ان سب میں یہ واقعہ اس قدر اجمال کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے کہ اس سے


صحیح صور تحال کا پتہ لگانا تقریبا ناممکن ہے۔ اول تو زیاد کا واسطہ ہی مخدوش ہے ، کچھ پتہ نہیں کہ حضرت معاویہ نے واقعہ اس  مضمون کا خط لکھا بھی تھا یا نہیں؟ اور اگر لکھا تھا تو اس کے الفاظ کیا تھے ؟ اور ان کا واقعی منشاء کیا تھا؟ زیاد نے ان کے الفاظ روایت بالمعنی (INDIRECT NARRATION) کے


طور پر ذکر کئے ہیں جس میں ردوبدل کی بہت کچھ گنجائش ہے۔ اور اگر فرض کر لیا جائے کہ زیاد نے کسی بد دیانتی یا غلط فہمی کے بغیر حضرت معاویہ کا خط درست طور پر نقل کیا ہو تب بھی عین ممکن ہے کہ اس وقت بیت المال میں سونے چاندی کی کمی ہو اور حضرت معاویہ اپنے اندازے یا کسی اطلاع کی بناء پر یہ سمجھے ہوں کہ جبل الاسل کے جہاد میں جو سونا چاندی ہاتھ آیا ہے وہ کل مال غنیمت کے پانچویں حصے سے زائد نہیں ہے اس لئے انہوں نے بیت المال کی کمی کو پورا کرنے کے لئے یہ حکم جاری فرمایا ہو کہ مال غنیمت میں سے جو پانچواں حصہ بیت المال کے لئے بھیجا جاۓ گا اس میں دیگر اشیاء کے بجاۓ صرف سونا چاندی ہی بھیجا جائے۔ ظاہر ہے یہ حکم کسی طرح کتاب وسنت کے خلاف نہ تھا لیکن حضرت حکم بن عمرو نے اس پر اس لئے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ فی الواقعہ مال غنیمت کے طور پر ملنے والا سونا چاندی پانچویں حصہ سے زائد تھا۔ ایسی صورت میں وہ سارا


سونا چاندی بیت المال میں داخل کرنے کو کتاب اللہ کے خلاف تصور کرتے تھے۔ غرض کہ اس مجمل واقعہ کی بہت سی توجیہات ممکن ہیں۔ اب یہ بات عقل اور دیانت کے قطعی خلاف ہوگی کہ ہم ان قوی احتمالات کو قطعی طور پر رد کر دیں جن سے حضرت معاوی کی مکمل براءت واضح ہوتی ہو اور جو ضعیف احتمالات ان کی ذات والا صفات کو مجروح کرتے ہوں انہیں اختیار کر کے بلا تامل یہ حکم لگا دیں کہ "حضرت معاویہ نے مال غنیمت کی تقسیم کے معاملے میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے صریح احکام کی خلاف ورزی کی۔“


حضرت علی پر سب و شتم 

مولانا مودودی صاحب نے ” قانون کی بالا تری کا خاتمہ“ کے عنوان کے تحت حضرت معاویہ پر چو تھا اعتراض یہ کیا ہے کہ : ۔ ”ایک اور نہایت مکروہ بدعت حضرت معاویہ کے عہد میں یہ شروع ہوئی کہ وہ خود اور ان کے حکم سے ان کے تمام گورنر ، خطبوں میں بر سر منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب وشتم کی بوچھاڑ کرتے تھے ، حتی کہ مسجد نبوی میں منبر رسول پر عین روضہ نبوی کے سامنے حضور کے محبوب ترین عزیز کو گالیاں دی جاتی تھیں اور حضرت علی کی اولاد اور ان کے قریب ترین رشتہ دار اپنے کانوں سے یہ گالیاں سنتے تھے ، کسی کے مرنے کے بعد اس کو گالیاں دینا شریعت تو در کنار انسانی اخلاق کے بھی خلاف ہے اور خاص طور پر جمعہ کے خطبہ کو اس گندگی سے آلودہ کرنا تو دین واخلاق کے لحاظ سے سخت گھناؤنا فعل تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے آکر اپنے خاندان کی دوسری غلط روایات کی طرح اس راویت کو بھی بدلا اور خطبہ جمعہ میں سب علی کی جگہ یہ آیت پڑھنی شروع کردی : -


ان الله يامر بالعدل والاحسان ...الخ(م : ۱۷۴) مولانا نے اس عبارت میں تین دعوے کئے ہیں ، ایک یہ کہ حضرت معاویہ حضرت علی پر خود سب و شتم کی بوچھاڑ کرتے تھے، دوسرے یہ انکے تمام گور نر یہ حرکت کرتے تھے، تیسرے یہ کہ می گورنر حضرت معاویہ کے حکم سے ایسا کرتے تھے۔ اب تینوں دعوؤں کا اصل مآخذ میں مطالعہ کیجئے:


جہاں تک پہلے دعوے کا تعلق ہے سو حضرت معاویہ کی طرف اس مکروہ بدعت کو منسوب کرنے کے لئے انہوں نے تین کتابوں کے پانچ حوالے پیش کئے ہیں (طبری جلد ۴ ص  ۱۸۸ ابن اثیر ج ۳ ص ۲۳۳ ج ۳ ص ۱۵۴ البدایہ ج ۹ ص ۸۰) ہم نے ان میں سے ایک ایک حوالہ کو صرف مذکورہ صفحات ہی پر نہیں بلکہ ان کے اس پاس بھی بنظر غائر دیکھا ہمیں کسی بھی کتاب میں یہ کہیں نہیں ملا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ "خود" حضرت علی پر بر سر سیرت و شتم کی بوچھاڑ کرتے تھے لیکن چونکہ مولانا نے تصریح کے ساتھ لکھا ہے کہ اس " انسانی اخلاق کے خلاف" فعل کا ارتکاب وہ خود کیا کرتے تھے۔اس لئے ہم نے سوچا کہ شاید مولانا نے ایسی کوئی روایت کسی اور مقام پر دیکھ لی ہو اور اس کا حوالہ دینا بھول مجھے ہوں چنانچہ ہم نے مذکورہ تمام کتابوں کے متوقع مقامات پر دیر تک جستجو کی کہ شاید کوئی گری بڑی روایت ایسی مل جاۓ لیکن یقین فرمائیے کہ ایسی کوئی بات ہمیں کسی کتاب میں نہیں ملی۔ پھر بعض ان تواریخ کی طرف بھی رجوع کیا جن کے بارے میں مولانا کو اعتراف ہے کہ ان کے مصنف شیعہ تھے۔ مثلا مسعودی کی مروج الذہب، لیکن اس میں بھی ایسی کوئی بات نہیں


گی۔ اس کے برعکس اس جستجو کے دوران ایسی متعدد روایات ہمیں ملیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت معاویہ حضرت علی سے اختلاف کے باوجود ان کا کس قدر احترام کرتے تھے؟


ان میں چند روایات ملاحظہ فرمائیے:


() حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں:۔


لماجاء خبر قتل على الى معاوية جعل يبكى فقالت له امراته اتبكيه وقدقاتله فقال ويحك انك لا تدرين ما فقدالناس من


الفصل والفقه والعلم له ”جب حضرت معاویہ کو حضرت علی کے قتل ہونے کی خبر ملی تو وہ رونے گئے۔ ان کی المیہ نے ان سے کہا کہ آپ اب ان کو روتے ہیں حالانکہ زندگی میں ان سے لڑ چکے ہیں؟ حضرت معاویہ نے فرمایا کہ تمہیں پت نہیں کہ آج لوگ کتنے علم و فضل اور فقہ سے محروم ہو گئے۔“ یہاں حضرت معاویہ کی المیات نے یہ اعتراض تو کیا کہ اب آپ انھیں کیوں روتے ہیں جب کہ زندگی میں ان سے لڑتے رہے لیکن یہ نہیں کہا کہ زندگی میں تو آپ ان پر سب وشتم  کیا کرتے تھے اب ان پر کیوں روتے ہیں؟ (۲) امام احمد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت بسر بن ارطاۃ نے حضرت معاویہ اور حضرت زید بن عمر بن خطاب کی موجودگی میں حضرت علی کو کچھ برا بھلا کہا حضرت معاویہ نے اس پر انہیں تو پیچ کرتے ہوۓ فرمایا


نشتم عليا وهو جده تم علی کو گالی دیتے ہو حالانکہ وہ ان کے دادا ہیں۔“۔ (۳) علامہ ابن اثیر جزری نے حضرت معاویہ کا جو آخری خطبہ نقل کیا ہے اس میں ان کے یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ لن ياتيكم من بعدى الامن انا خير منه كما ان من قبلي كان میرے بعد تمہارے پاس (جو خلیفہ ) بھی آۓ گا میں اس سے بہتر ہوں گا خیرامنی که


جس طرح مجھ سے پہلے جتنے (خلفاء) تھے مجھ سے بہتر تھے۔ (۴) علامہ ابن عبدالبر نے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ نے بڑے اصرار کے ساتھ ضرار صدائی سے کہا کہ ”میرے سامنے علی کے اوصاف بیان کرو“ ضرار صدائی نے بڑے بلیغ الفاظ میں حضرت علی کی غیر معمولی تعریفیں کیں ، حضرت معاویہ سنتے رہے اور آخر میں رو پڑے ، پھر فرمایا رحم الله ابالحسن كان والله کذالک


اللہ ابوالحسن (علی) پر رحم کرے خدا کی قسم وہ ایسے ہی تھے۔سے نیز حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہ مختلف فقہی مسائل میں حضرت علی سے خط و کتابت کے ذریعے معلومات حاصل کیا کرتے تھے چنانچہ جب ان کی وفات کی خبر پہنچی تو  حضرت معاویہ نے فرمایا کہ  ذهب الفقه والعلم بموت ابن ابی طالب”ابن ابی طالب کی موت سے فقہ اور علم رخصت ہو گئے۔۔۔


غرض اس جستجو کے دوران ہمیں اس قسم کی تو کئی روایتیں ملیں، لیکن کوئی ایک روایت بھی ایسی نہ مل سکی جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ (معاذ اللہ ) خطبوں میں حضرت علی پر سب و شتم کی بوچھاڑ کیا کرتے تھے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ مولانا مودودی صاحب نے حضرت معاویہ پر یہ الزام کس بنیاد پر کس دل سے عائد کیا ہے؟ پھر دو سرا دعوی مولانا نے یہ کیا ہے کہ ”ان کے حکم سے ان کے تمام گورنر خطبوں


میں بر سر منبر حضرت علی پر سب وشتم کی بوچھاڑ کرتے تھے۔“ ظاہر ہے کہ مولانا کا یہ دعوی اس وقت تو ثابت ہو سکتا ہے جب وہ حضرت معاویہ کے تمام گورنروں " کی ایک فہرست جمع فرما کر ہرایک گورنر کے بارے میں یہ ثابت فرمائیں کہ ان میں سے ہر ایک نے انفرادی یا اجتماعی طور پر (معاذ اللہ ) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو گالیاں دی تھیں ، نیز اس بات کا بھی ثبوت ان کے پاس ہو کہ ان میں سے ہر ایک کو انفرادی یا اجتماعی طور پر حضرت معاویہ نے یہ حکم دیا تھا کہ حضرت علی پر سب وشتم کی بوچھاڑ کیا کرو۔ لیکن اپنے اس الزام کی تائید میں جو حوالے مولانا نے پیش کئے ہیں ہم نے ان کی طرف رجوع کیا تو ان میں سے ایک بات بھی صحیح ثابت نہیں ہو سکی۔ اول تو یہ سمجھ لیجئے کہ مولانا کے دیئے ہوئے پانچ حوالوں میں حضرت معاویہ کے صرف دو گورنروں کے بارے میں ! یہ کہا گیا ہے کہ وہ حضرت علی کی مذمت کیا کرتے تھے ایک حضرت مغیرہ بن شعبہ دوسرے مروان بن الحکم ہے۔ اگر ان روایات کو تھوڑی دیر کے لئے درست مان لیا جاۓ تو زیادہ سے زیادہ حضرت معاویہ کے دو گورنروں پر یہ الزام لگایا جاسکتا ہے کہ وہ حضرت علی کو برا بھلا کہا کرتے تھے۔ اس سے آخر یہ کیسے لازم آگیا کہ حضرت معاویہ کے تمام گورنر " خود حضرت معاویہ کے حکم سے ایسا کیا کرتے تھے۔ یہ تمام گورنر کا الزام تو ایسا ہے کہ اسے شاید کسی موضوع روایتوں کے مجموعے سے بھی ثابت نہ کیا جا سکے۔ اس کے بعد اب ان دو روایتوں کی حقیقت بھی سن لیجئے جن میں حضرت مغیرہ بن شعبہ اور مروان بن الحکم کے بارے میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ (معاذ اللہ ) حضرت علی پر سب و


شتم کیا کرتے تھے۔ پہلی روایت اصلا علامہ ابن جریر طبری نے اپنی سند کے ساتھ ذکر کی ہے اور انہیں سے نقل کر کے ابن اثیر جزری" نے اپنی تاریخ الکامل میں اسے درج کر دیا ہے روایت کےالفاظ یہ ہیں۔



 "قال هشام بن محمد عن ابی مخنف عن المجالد بن سعيد والصقعب بن زهير و فضيل بن خديج والحسين بن عقبة المرادي قال كل قد حدثني بعض هذا الحديث فاجتمع حديثهم . فيما سقت من حديث حجر بن عدى الكندي واصحابه ان معاویہ بن ابی سفیان لما ولى المغيرة بن شعبة في جمادى سنة ٣١ دعاه فحمدالله واثنى عليه ثم قال اما بعد... وقد اردت ایصاك باشياء كثيرة فانا تاركها اعتماداً على بصرك بما يرضيني ويسعد سلطاني ويصلح به رعینی ولست نارکا ایصاءك بخصلة لاتتحم عن شتم على و ذمه والترحم على عثمان والاستغفار له والعيب على اصحاب على والاقصاءلهم وترك الاستماع منهم... قال ابومخنف قال الصقعب بن زهير سمعت الشعبي يقوله.. واقام المغيرة على الكوفة عاملا لمعاوية سبع سنين واشهراً وهو من احسن شيني سيرة واشده حبا للعافية غير انه لا يدع دم على   ہشام بن محمد نے ابو مخنف سے اور انہوں نے مجالد بن سعید متعب ابن زہیر، فضیل بن خدیج اور حسین بن عقبتہ مرادی سے راویت کیا ہے کہ ابو مخنف کہتے ہیں کہ ان چاروں نے مجھے آئندہ واقعہ کے تھوڑے تھوڑے ٹکڑے بنائے ، لہذا حجر بن عدی کندی کا جو واقعہ میں آگے سنا رہا ہوں اس میں ان چاروں کی مختلف روایتیں جمع ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ”جب ماہ جمادی ۴۱ ھ میں معاویہ بن ابی سفیان نے کوفہ پر مغیرہ بن شعبہ کو گورنر بنایا تو انہیں بلا کر پہلے اللہ کی حمدوثنا کی پھر کہا کہ ..... میرا ارادہ تھا کہ میں تمہیں بہت چیزوں کی نصیحت کروں ،لیکن چونکہ مجھے اعتماد ہے کہ تم مجھے راضی رکھنے میری سلطنت کو کامیاب بنانے اور میری رعایا کی اصلاح کرنے پر پوری نظر رکھتے ہو اسلئے میں ان تمام باتوں کو چھوڑتا ہوں۔ البتہ تمہیں ایک نصیحت کرنا میں ترک نہیں کر سکتا وہ یہ کہ علی کی دمت کرنے اور انہیں گالی دینے سے پرہیز نہ کرنا عثمان پر رحمت بھیجتے رہنا اور ان کے لئے استغفار کرتے رہنا۔ علی کے اصحاب پر عیب لگانا۔ انہیں دور رکھنا اور ان کی بات نہ سننا عثمان کے اصحاب کی خوب تعریف کرنا انہیں قریب رکھنا اور ان کی باتیں سنا کرتا .... ابو مخنف کہتا ہے کہ متعب بن زہیر نے کہا کہ میں نے شعبی کو کہتے ہوۓ نا کہ .... مغیرہ کوفہ میں معاویہ کے عامل کی حیثیت سے سات سال اور کچھ مہینے رہے وہ بہترین سیرت کے مالک تھے اور عافیت کو تمام لوگوں سے زیادہ پسند کرتے


تھے البتہ وہ علی کی مذمت اور انہیں برا بھلا کہنا نہیں چھوڑتے تھے۔“ یہ ہے وہ روایت جو مولانا کے مذکورہ بیان کی اصل الاصول ہے۔ اور جسے دیکھ کر مولانا نے صرف حضرت مغیرہ بن شعبہ پر نہیں بلکہ خود حضرت معاویہ اور ان کے تمام گورنروں پر بلا استثناء الزام لگا دیا ہے کہ وہ بر سر منبر حضرت علی پر سب وشتم کیا کرتے تھے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر اس روایت کو درست مان لیا جاۓ تو خودای روایت میں آگے چل کر صاف لکھا ہوا ہے کہ وہ حضرت علی کی مذمت کس طرح کیا کرتے تھے؟ ٹھیک اسی صفحہ پر جس پر ابو مختلف کے مذکورہ بالا الفاظ لکھے ہیں آگے یہ الفاظ بھی ہیں  کہ قام المغيرة فقال في علی و عثمان كما كان يقول وكانت مقالته اللهم ارحم عثمان بن عفان و تجاوز عنه واجزه باحسن عمله فانه عمل بكتابك واتبع سنة نبيك صلى الله عليه وسلم كلمتنا و حقن دماء ناوقتل مظلوما اللهم فارحم أنصاره واولياء، ومحبيه والطالبين بلعه ويدعو على قتلته له حضرت مغیرہ کھڑے ہوۓ اور حضرت علی اور عثمان کے بارے میں جو کچھ کہا کرتے تھے وہی کہا۔ ان کے الفاظ میں تھے کہ یا اللہ عثمان بن عفان پر رحم فرما اور ان سے درگزر فرما اور ان کے بہتر عمل کی انہیں جزا دے کیونکہ انہوں نے تیری کتاب پر عمل کیا اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی اور ہماری بات ایک کر دی اور ہمارے خون کو بچایا اور مظلوم ہو کر قتل ہوگئے یا اللہ ان کے مددگاروں دوستوں محبت کرنے والوں اور ان کے قصاص کا مطالبہ کرنے والوں پر رحم فرما اور وہ ان کے قاتلوں کے لئے بد دعا کرتے تھے۔“


کہ :اس سے معلوم ہوا کہ در حقیقت حضرت مغیرہ حضرت علی کی ذات پر کوئی ختم نہیں فرماتے تھے بلکہ وہ قاتلین عثمان کے لئے بددعا کیا کرتے تھے۔ جسے شیعہ راویوں نے حضرت علی پر لعن و طعن سے تعبیر کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب راوی حضرت مغیرہ کے الفاظ صراحتاً نقل کر رہے ہیں تو فیصلہ ان الفاظ پر کیا جاۓ گا نہ کہ اس تاثر پر جو ان الفاظ سے راویوں نے لیا۔ یا اس تعبیر پر جو روایت با معنی (INDIRECT NARRATION) میں انہوں


نے اختیار کی۔ پھر دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ حافظ ابن جریر نے یہ روایت جس سند کے ساتھ نقل کی ہے وہ اول سے آخر تک شیعہ یا کذاب اور جھوٹے راویوں پر مشتمل ہے۔ اس روایت کا پہلا راوی ہشام بن الکلبی ہے جو مشہور راوی محمد بن السائب الکلبی  رافضى ليس بثقة


”وہ رافضی ہے ، ثقہ نہیں ۔۔ اور حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ ابن ابی طی نے اسے امامیہ (شیعوں کا ایک فرقہ ) میں شمار کیا ہے اور ابن ابی یعقوب حریمی فرماتے ہیں کہ راوية للمثالب غاية انتہا درجے کی مثالب روایت کرتا ہے۔“ پھر دو سرا راوی ابو مخنف لوط بن بیٹی ہے، اس کے بارے میں حافظ ابن عدی فرماتے ہیں :

شیعی محترق صاحب اخبارهم ** جلا بھنا شیعہ ہے اوراضی کی روایت کا ذکر کرتا ہے۔" تیسرا راوی مجالد بن سعید ہے ان کے ضعیف ہونے پر تو تمام ائمہ حدیث کا اتفاق ہے ہی یہاں تک کہ تاریخی روایات میں بھی انہیں ضعیف مانا گیا ہے۔ امام یحیی بن سعید قطان کے کوئی دوست کہیں جا رہے تھے انہوں نے پوچھا۔ کہاں جا رہے ہو۔“ انہوں نے کہا۔ وہب بن جریر کے پاس جا رہا ہوں وہ سیرت کی کچھ کتابیں اپنے باپ سے بواسطہ مجالد سناتے ہیں۔" یحیی بن سعید نے فرمایا تم بہت جھوٹ لکھ کر لاؤ گے۔“ اس کے علاوہ رنج کا قول ہے کہ ۔ یہ شیعہ ہے"۔


چوتھے راوی فضیل بن خدیج ہیں ان کے بارے میں حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ ابو حاتم کا قول ہے کہ فضیل بن خدیج اشتر کے غلام سے روایت کرتا ہے ، مجہول ہے  اور جو راوی اس سے روایت کرتا ہے وہ متروک ہے۔ ان کے علاوہ دو راوی جن کا ذکر ابو مخنف نے کیا ہے ، یعنی متعب بن زہیر اور فضیل بن خدیج وہ تو سرے سے مجہول ہی میں نے اب آپ غور فرمائیے کہ جس روایت کے تمام راوی از اول تا آخر شیعہ ہوں اور ان میں سے بعض نے مقصد ہی یہ بنا رکھا ہو کہ صحابہ کرام کی طرف بری بھلی باتیں منسوب کریں۔ کیا ایسی روایت کے زریعے حضرت معاویہ یا حضرت مغیرہ بن شعبہ کے خلاف کوئی الزام عائد کرنا سرا سر ظلم نہ ہو گا؟ مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ: میں نے قاضی ابو بکر بن العربی اور علامہ ابن تیمیہ کی کتابوں پر اعتماد کرنے کے بجاۓ خود تحقیق کر کے آزادانہ راۓ قائم کرنے کا راستہ اس لئے اختیار کیا ہے کہ ان بزرگوں نے اپنی کتابیں شیعوں کی رد میں لکھی ہیں لہذا ان کی حیثیت وکیل صفائی کی سی ہو گئی ہے۔۔۔ اب مولانا مودودی صاحب خود ہی انصاف فرمائیں کہ کیا یہ غیر جانبداری کا تقاضا ہے کہ ”وکیل صفائی" کی بات تو سنی ہی نہ جائے۔ خواہ وہ کتنی ثقہ قابل اعتماد اور قابل احترام شخصیت ہو اور دوسری طرف دی" کی بات کو بے چوں و چرا تسلیم کر لیا جاۓ ، خواہ وہ کتنا ہی جھوٹا اور افتراء پرداز ہو؟ قاضی ابوبکر بن عربی اور ابن تیمیہ (معاذ اللہ ) حضرت علی کے دشمن نہیں ، صرف حضرت معاویہ کے ثقہ دوست ہیں۔ دوسری طرف ہشام بن الکلبی اور ابو مخنف حضرت معاویہ کے کھلے دشمن ہیں۔ اور ان کی افتراء پردازی نا قابل تردید دلائل کے ساتھ ثابت ہے یہ آخر غیر جانب داری کا کون سا تقاضا ہے کہ پہلے فریق کی روایات سے صرف ان کے ”حب معاوی" کی وجہ سے یکسر پر ہیز کیا جاۓ اور دوسرے فریق کی روایات پر ان کے بغض معاویہ کے باوجود کوئی تنقید ہی نہ کی جاۓ؟ مولانا مودودی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ :


لے میزان الاعتدال ص ۳۳۴ ج ۲ داسان الميزان ص ۴۵۳ ج ۴ ل متعب بن زہیر کو اگر چہ امام ابو زرعہ نے ثقہ قرار دیا ہے مگر اس کے بارے میں ابو حاتم رازی فرماتے ہیں شیخ لیس بمشھور (الجرح والتعدیل ص ۴۵۵ ج ۲ قسم ۱) اور قبیل کے بارے میں لکھتے ہیں   «بعض حضرات تاریخی روایات کو جانچنے کے لئے اسماء الرجال کی کتابیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں فلاں راویوں کو ائمہ رجال نے مجروح قرار دیا ہے۔۔۔۔ یہ باتیں کرتے وقت یہ لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ محدثین نے روایات کی جانچ پڑتال کے یہ طریقے دراصل احکامی احادیث کے لئے اختیار کئے ہیں۔۔۔۔۔۔ الخ


پھر آگے لکھتے ہیں۔ اس لئے کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ ابن سعد ابن عبدالبر ابن کثیر ابن جریر ابن حجر اور ان جیسے دوسرے ثقہ علماء نے اپنی کتابوں میں جو حالات مجروح راویوں سے نقل کئے ہیں انہیں رد کر دیا جاۓ۔ الخ (ص ۳۱۷ ] (۳۱۹

یہاں سب سے پہلے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر تاریخی روایات میں سند کی جانچ پڑتال کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور جو روایتیں ان مؤرخین نے اپنی کتابوں میں درج کردی میں انہیں بس آنکھ بند کر کے قبول ہی کر لینا چاہے تو آخر ان حضرات نے تقریبا ہر روایت کے شروع میں سند کو نقل کرنے کی زحمت ہی کیوں اٹھائی؟ کیا اس طرز عمل کا واضح مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ روایات کی صحت و سقم کی ذمہ داری اپنے قارئین اور محققین پر ڈال رہے ہیں کہ مواد ہم نے جمع کر دیا اب یہ تمہارا فرض ہے کہ اسے تحقیق و تنقید کی کسوٹی پر پر کھو اور اہم نتائج اخذ کرنے کے لئے صرف ان روایات پر بھروسہ کرو جو تحقیق و تنقید کے معیار پر پوری اترتی ہوں۔ ورنہ اگر تاریخی روایات کے معاملے میں اسماء الرجال کی کتابیں کھول کر بیٹھ جانے کی ممانعت کر دی جائے تو خدا را مولانا مودودی صاحب یہ بتلائیں کہ ابن  جریر نے جو یہ نقل کیا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام (معاذ اللہ ) اور یا کی بیوی پر فریفتہ ہو گئے تھے اس لئے اسے متعدد خطرناک جنگی مہمات پر روانہ کر کے اسے مروا دیا پھر اس کی بیوی سے شادی کر لی۔ اسے رد کر دینے کی آخر کیا وجہ ہے؟ نیز ابن جریر نے جو اپنی تاریخ میں بے شمار متعارض احادیث نقل کی ہیں ان میں ترجیح آخر کس بناء پر دی جا سکے گی۔ تطویل سے بچنے کے لئے ہم اس بحث کو یہاں چھوڑتے ہیں کہ حدیث اور تاریخ کے درمیان معیار صحت کے اعتبار سے کیا فرق ہے؟ ہم چونکہ یہاں خاص اس روایت کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں جس سے حضرت مغیرہ بن شعبہ کے بارے میں یہ معلوم ہو تا ہے کہ وہ حضرت معاویہ کے حکم سے بر سر منبر حضرت علی کی مذمت کیا کرتے تھے۔ اس لئے مختصراً یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ روایت کیوں نا قابل قبول ہے ؟ ہمارا خیال ہے کہ تاریخ اور حدیث کے فرق کو فون رکھنے کے باوجود مندرجہ ذیل وجوہ کی بناء پر مولانا کو بھی تسلیم کرنا چا ہے کہ یہ روایت قطعی طور پر نا قابل اعتماد ہے : ا۔ اس کے راوی سارے کے سارے شیعہ ہیں اور کسی روایت سے جو صرف شیعوں سے منقول ہو حضرت معاویہ پر طعن کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔ ۲۔ اس کے تمام راوی ضعیف یا مجہول ہیں اور ایسی روایت تاریخ کے عام واقعات کے معاملے میں تو کسی درجہ میں شاید قابل قبول ہو سکتی ہو۔ لیکن اس کے ذریعے کوئی ایسی بات ثابت نہیں ہو سکتی جس سے کسی صحابی کی ذات مجروح ہوتی ہے۔  ۳۔ یہ روایت درایت کے معیار پر بھی پوری نہیں اترتی اس لئے کہ اگر حضرت مغیرہ بن شعبہ حضرت معاویہ کے حکم سے سات سال سے زائد مدت تک منبروں پر کھڑے ہو کر حضرت علی پر سب وشتم کی بوچھاڑ کرتے رہے تو :


(الف) اس ”سب و شتم کی روایت کرنے والے تو بے شمار ہونے جائیں۔ یہ صرف ایک شخص ہی اس کی روایت کیوں کر رہا ہے؟ اور ایک بھی وہ جو شیعہ ہے اور اس کا جھوٹا ہونا معروف ہے؟ (ب) کیا پوری امت اسلامیہ اپنے ”خیر القرون“ میں ایسے اہل جرات اور اہل انصاف سے قطعی طور پر خالی ہو گئی تھی جو اس مکروہ بدعت" سے حضرت معاویہ اور ان کے گورنروں کو روکتے کیا حضرت حجر بن عدی کے علاوہ کوئی باغیرت مسلمان کوفہ میں موجود نہیں تھا؟ (ج) عدالت و دیانت کا معاملہ تو بہت بلند ہے۔ حضرت معاویہ کے عقل و تدبر اور سیاسی بصیرت سے تو ان کے دشمنوں کو بھی انکار نہیں ہو گا کیا ۔یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ ان جیسا صاحب فراست انسان محض بغض کے جذبات میں بہہ کر ایک ایسا بے فائدہ اقدام کرے جو اس کی حکومت کے استحکام کے لئے خطرہ بن سکتا ہے؟ کوفہ حضرت علی کے معتقدین کا مرکز  تھا۔ کیا حضرت معاویہ ان کے سامنے حضرت علی پر سب و شتم کروا کر بیہ چاہتے تھے کہ حضرت علی کی وفات کے بعد بھی اہل کوفہ سے برابر لڑائی ٹھنی رہے اور وہ کبھی دل سے حضرت معاویہ کے ساتھ نہ ہوں؟ کوئی گھٹیا سے گھٹیا سیاست دان بھی کبھی یہ نہیں کر سکتا کہ اپنے مخالف قائد کے مرنے کے بعد اس قائد کے معتقدین کے گڑھ میں بلاوجہ اسے گالیاں دیا کرے۔ ایسا کام وہی شخص کر سکتا ہے جسے لوگوں کو خواہ مخواہ اپنی حکومت کے خلاف بھڑکانے کا شوق ہو۔ ان وجوہ کی بناء پر یہ روایت تو قطعی طور پر نا قابل قبول ہے۔ دوسری روایت جس کا


حوالہ مولانا نے دیا ہے البدایہ والنہایہ کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں۔ "ولما كان (مروان) متوليا على المدينة لمعاوية كان يسب علياكل جمعة على المنبر وقال له الحسن بن على:لقدلعن الله اباك الحكم وانت في صلبه على لسان نبيه فقال: لعن الله الحكم وما ولدوالله اعلم ”جب مروان مدینہ منورہ میں حضرت معاویہ کا گورنر تھا اس وقت وہ ہر جمعہ کو منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی پر سب وشتم کیا کرتا تھا اور اس سے حضرت حسن بن علی نے فرمایا کہ : تیرے باپ حکم پر اللہ نے اپنے نبی کی زبان سے اس وقت لعنت کی تھی جب تو اس کی صلب میں تھا اور یہ کہا تھا کہ حکم اور اس کی اولاد پر خدا کی لعنت ہو۔۔۔   اگر چہ یہ روایت کی وجہ سے مشکوک ہے ، لیکن اتنی بات کچھ اور روایتوں سے بھی مجموعی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ مروان بن الحکم مدینہ منورہ کی گورنری کے دوران حضرت علی کی شان میں کچھ ایسے الفاظ استعمال کیا کرتا تھا جو حضرت علی کو محبوب رکھنے والوں کو ناگوار گزرتے تھے لیکن یہ نازیبا الفاظ کیا تھے؟ ان تاریخی روایتوں میں سے کسی میں ان کا ذکر نہیں البتہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ایک واقعہ اس طرح ذکر کیا گیا ہے کہ :


" ان رجلا جاء الى سهل بن سعد فقال هذا فلان لامير المدينة يدعو عليا عندالمنبر قال فيقول ماذا قال يقول له ابو تراب فضحك وقال والله ما سماه الا النبي صلى الله عليه وسلم وما كان له اسم احب اليه منه


”ایک شخص حضرت سل کے پاس آیا اور بولا کہ امیرمدینہ منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی کو سب و شتم کرتا ہے، حضرت سہل نے پوچھا وہ کیا کہتا ہے؟ اس نے کہا کہ انہیں ”ابو تراب" کہتا ہے۔ حضرت سہل ہنس پڑے اور فرمایا خدا کی قسم اس نام سے تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکارا ہے اور آپ کے نزدیک ان کا اس سے پیا را نام کوئی نہ تھا۔ اگر یہاں ”امیر مدینہ سے مراد مروان ہی ہے جیسا کہ ظاہر ی ہے تو اس سب وشتم کی حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے۔ ابو تراب کے معنی ہیں ”مٹی کا باپ" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کو محبت میں اس نام سے پکارا کرتے تھے، مروان زیادہ سے زیادہ اسے اس کے حقیقی معنوں میں استعمال کرتا ہو گا۔ اگر فرض کیجئے کہ مردان اس سے بھی زیادہ کچھ نازیبا الفاظ حضرت علی کی شان میں استعمال کرتا تھا تو آخر یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ وہ یہ کام حضرت معاویہ کے حکم سے کرتا تھا۔ مولانا نے البدایہ کی جس عبارت کا حوالہ دیا ہے اس   میں بھی کہیں یہ مذکور نہیں کہ حضرت معاویہ نے اسے اس کام کا حکم دیا تھا یا وہ اس کے اس فعل پر راضی تھے۔ ایسی صورت میں یہ الفاظ لکھنے کا کوئی جواز ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ


حضرت معاویہ :”خود“ اور ان کے حکم سے ان کے تمام گور نر خطبوں میں بر سر منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کی بوچھاڑ کرتے تھے۔“ مندرجہ بالا بحث سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ : ہوۓ حوالے کے اندریا اور کہیں یہ بات موجود نہیں ہے کہ وہ حضرت معاویہ کے حکم سے روایت و درایت ہر اعتبار سے واجب الرد ہے۔


ا۔ خود حضرت معاویہ کی طرف سب و شتم کی جو نسبت مولانا نے کی ہے ، اس کا تو کوئی اونی ثبوت بھی مولانا کے بیان کردہ حوالوں میں، بلکہ کہیں نہیں ہے اور اس کے بر عکس حضرت معاویہ سے حضرت علی کی تعریف و توصیف کے جملے منقول ہیں۔


۲۔ اسی طرح تمام گورنر کا جو لفظ مولانا نے استعمال کیا ہے وہ بھی بالکل بلا دلیل ہے۔ مولانا کے بیان کردہ حوالوں میں صرف دو گورنروں کا ذکر ہے۔ ۳۔ ان دو گورنروں میں سے ایک یعنی مروان بن الحکم کے بارے میں مولانا کے دیئے


حضرت علی پر سب وشتم کیا کرتا تھا۔ ۔ سب و شتم کی بوچھاڑ کا لفظ بھی بلا دلیل ہے اس لئے کہ مولانا کے دیئے ہوۓ حوالے میں تو سب وشتم کے الفاظ منقول نہیں ۔ صحیح بخاری کی روایت سے جو الفاظ معلوم


ہوتے ہیں انہیں ”سب و شتم“ کھینچ تان کر ہی کہا جا سکتا ہے۔ ۵۔ دوسرے گورنر حضرت مغیرہ بن شعبہ کے بارے میں مولانا نے حوالہ صحیح دیا ہے لیکن ساتھ ہی اس میں یہ تصریح ہے کہ وہ قاتلین عثمانی کے لئے بددعا کیا کرتے تھے۔ دوسرے یہ روایت از اول تا آخر سارے کے سارے شیعہ راویوں سے مروی ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]

| HOME | ABOUT | CONTACT US | AZAN | TILAWAT-E-QURAN | BAYAN | ISLAMIC STORIES | HAMD-O-NAAT | MOLANA TARIQ JAMEEL |
| MUFTI TARIQ MASOOD | MUFTI ANAS YOUNUS | HAFIZ ABDUL BASIT | OTHERS HAMD-O-NAAT | MUFTI ANAS YOUNUS (AUDIO) |


| Designed by Muhammad kamran Yousuf Colorlib
}