یہ کون تھے؟
2005 میں مسجد حرام کی تاریخ میں عجیب واقعہ ہوا۔ ایک شیخ عمرہ کا طواف کرنے مطاف میں داخل ہوئے تو 30 ہزار مریدین ساتھ تھے۔ سب ایک ہی انداز میں تلبیہ پڑھ رہے تھے اور ایک ہی انداز میں دعائیں مانگ رہے تھے۔ اس عجیب منظر کو عرب اور بین الاقوامی میڈیا میں خوب کوریج دی گئی۔ 30 ہزار پروانوں کے جھرمٹ میں مطاف کو بھر دینے والی یہ شخصیت شیخ محمود آفندی تھے۔ جو آج خالق حقیقی سے جاملے۔
عالم اسلام کی نامور روحانی و علمی شخصیت، ترکیہ (سابقہ ترکی) میں احیائے دین کے مرکزی کردار اور عظیم مصلح و داعی الشیخ محمود آفندی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بدلنے والے مرشدِ کامل کے سانحۂ ارتحال کو ملتِ اسلامیہ کا ناقابل تلافی نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔ شیخ کی نماز جنازہ آج بعد نماز جمعہ ادا کی جائے گی۔ وہ ترک صدر رجب طیب اردگان کے بھی مرشد اور 500 بااثر ترین مسلم شخصیات میں سے تھے۔ دنیا بھر کے علما و صلحا ان سے روحانی فیض حاصل کرتے اور دست بوسی کیلئے حاضر ہوتے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق شیخ آفندی خلافتِ عثمانیہ کی آخری نشانی تھے۔ انہوں نے قرآن و سنت کے نور سے ترکی کے کئی علاقوں کو منور کر دیا۔ ترکی میں بہت سے ایسے علاقے ہیں، جہاں آپ کو ہر شخص مکمل اسلامی لباس اور وضع قطع میں نظر آئے گا، اس کے پیچھے جس شخصیت کی انتھک محنت کارفرما ہے، وہ شیخ آفندی ہی ہیں۔ الشیخ محمود آفندی (محمود استی عثمان اوغلو) 1929 میں ترکی کے صوبے ترابزون کے اوف نامی گاؤں کے ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے، جو کہ ترک صدر اردگان کی جائے پیدائش ’’ریزے‘‘ سے متصل شہر ہے۔ دینی ماحول میں پرورش ہوئی۔ شیخ نے صرف 6 سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرکے والدین کو سنایا۔
پھر دینی علوم کی تحصیل میں لگ گئے۔ لیکن یہ وہ زمانہ تھا کہ خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد کمال اتاترک ترکیہ سے اسلام کے نقش کہن کو کھرجنے میں مصروف تھا۔ مدارس اصطبل میں بدل چکے تھے۔ اس لئے محمود آفندی نے مختلف شیوخ کی خدمت میں حاضر ہو کر دینی علم حاصل کرتے رہے۔ شیخ تسبیحی زادہ سے نحو صرف اور دیگر علوم عربیہ حاصل کیا، پھر شیخ محمد راشد عاشق کوتلو آفندی کی خدمت میں رہ کر ان سے قراءت اور علوم قرآن کی تعلیم حاصل کی، بعد ازاں شیخ محمود آفندی نے شیخ دورسون فوزی آفندی (مدرس مدرسہ سلیمانیہ) سے دینیات، تفسیر، حدیث، فقہ اور اس کے مآخذ، علم کلام اور بلاغت اور دیگر قانونی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ مذکورہ اساتذہ سے انہوں نے علوم عقلیہ ونقلیہ میں اجازت حاصل کی۔ اس وقت وہ 16 سال کی عمر میں تھے۔ شخ محمود آفندی نے روحانی سلسلہ نقشبندیہ کمشنماونیہ کی اجازت اپنے شیخ احمد آفندی مابسیونیؒ سے حاصل کی، یہاں تک خدا کی توفیق سے آپ کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔ وہ فوج میں چلے گئے۔ اس دوران ایک نئے مرشد و مربی کے ساتھ اپنی عملی زندگی کو پروان چڑھانے کا موقع ملا۔ ملٹری سروس کا مرحلہ ان کی زندگی کا ایک روشن صفحہ اور عملی زندگی کا ایک نیا باب تھا، جس میں ان کی ملاقات ان کے شیخ اور مرشد علی حیدر اخسخویؒ سے ہوئی۔ ان سے آپ نے بہت کچھ سیکھا اور ان علوم و معارف اور روحانی کمالات حاصل کیے۔ بعد ازاں وہ مسجد میں امامت کے ساتھ اپنے گاؤں کے طلباء کو بھی پڑھاتے رہے۔ انہوں نے سال میں 3 ہفتے ترکیہ کے اطراف کا دعوتی و تبلیغی سفر کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ وہ اگرچہ حنفی تھے، لیکن انہیں چاروں فقہی مسالک پر مکمل مہارت حاصل تھی۔ دین کی خدمت کیلئے انہوں نے عظیم مجاہدات و ریاضات برداشت کیں۔ کہتے ہیں کہ وہ ایک مسجد میں 18 برس تک لوگوں کو نماز کیلئے دعوت دیتے رہے، لیکن کوئی بھی تیار نہیں ہوا۔ 18 برس کی مسلسل محنت کے بعد کچھ لوگ نماز کی طرف راغب ہوئے۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ جب سیکولر حکومت نے تمام عربی کتب پر پابندی عائد کی تو انہوں نے دینی علوم کی اشاعت کیلئے اشاروں کی زبان سے تدریس کا سلسلہ جاری کیا اور طلبہ کو اشاروں سے پڑھاتے رہے۔ ایسا بھی ہوا کہ وہ طلبہ کو لے کر کھیتوں میں جاتے اور انہیں پڑھانا شروع کرتے، جیسے ہی فوجیوں کو آتا دیکھتے تو طلبہ کو لے کر کھیتی باڑی میں مشغول ہوجاتے اور انہیں یہ تاثر دیتے کہ ہم درس و تدریس نہیں، بلکہ کھیتی باڑی میں مشغول ہیں۔ شیخ آفندیؒ نے جرمنی اور امریکہ سمیت کئی ممالک کے دعوتی اور تعلیمی دورے کیے، پھر 1954 میں استنبول میں اسماعیل آغا مسجد کے امام مقرر ہوئے۔ 1996 میں ریٹائر ہونے تک وہیں رہے اور وہ استنبول میں درس و تبلیغ کرتے رہے۔ وہیں ان کی خانقا بھی ہے، جہاں ترکیہ سمیت دنیا بھر سے لوگ آکر ان سے روحانی فیض پاتے رہے۔ وہ ایک عظیم فکری وعملی منہج قائم کرنے میں کامیاب رہے، جس کی بنیاد دعوت دین، احیائے سنت اور ریاستی حکام سمیت معاشرے کے تمام طبقات کی حق کی طرف رہنمائی تھی۔ انہوں نے ایسا اسلوب اختیار کیا، جس میں حق اور باطل میں واضح فرق قائم ہو جائے۔ استنبول میں 12 ستمبر 1980 کو پیش آنے والی دوسری بغاوت سے پہلے اور اسّی کی دہائی کے اوائل میں ملک میں پیدا شدہ انتشار کے دوران دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان شیخ آفندی مضبوطی کے ساتھ یہ آواز بلند کر رہے تھے کہ ہمارا قومی وملی فریضہ یہ ہے کہ ہم نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور ہمارا فرض لوگوں کو زندگی بخشنا ہے، انہیں مارنا نہیں۔ شیخ آفندی کی فوج اور سیکولرازم کے ساتھ جد وجہد کی روشن تاریخ ہیں۔
ترک عوام پر ان کے بہت زیادہ اثر و رسوخ کی وجہ سے، انہیں فوجی جرنیلوں اور ریپبلکنز (ریپبلکن پیپلز پارٹی) نے ہراساں کیا، خاص طور پر 1960 کی بغاوت اور ملک میں ہنگامی حالت میں داخل ہونے کے بعد، فوجی انتظامیہ نے انہیں جلا وطنی کی سزا دی اور انہیں ترکی کے وسط میں واقع ’’اسکی‘‘ شہر بھیجنے کا فیصلہ کیا، لیکن اس فیصلے پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آئی۔ کئی آپ کے جاں نثار اس راہ میں ڈٹ گئے۔ اس وقت استنبول کے مفتی صلاح الدین قیا ان دفاع کرنے والوں میں سب سے آگے تھے۔1982 میں محمود آفندی پر اسکودر خطہ کے مفتی شیخ حسن علی اونال کے قتل میں ملوث ہونے کا بے بنیاد الزام لگایا گیا۔ ڈھائی سال کے بعد عدالت نے انہیں اس الزام سے بری کر دیا۔ 1985 میں انہیں ریاستی سلامتی کی عدالت نے طلب کیا، کیونکہ ان پر الزام تھا کہ ان کی تقریر و بیان ملکی سلامتی اور سیکولر شناخت کے لیے خطرہ ہے، لیکن عدالت نے اس معاملے میں بھی ان کی بے گناہی کا فیصلہ سنایا۔ 2007 میں استنبول کے Çavuşpaşa محلے میں شیخ محمود آفندی کی نئی رہائش گاہ کے قریب ان کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی، لیکن ان کے قتل کا یہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور شیخ کو خراش بھی نہیں آئی۔ ان کے اثر و رسوخ کا دائرہ کافی وسیع اور پیروکاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب عربی حروف میں پڑھنے لکھنے والے خال خال ہی نظر آتے تھے اور 40 سے 50 سال کا عرصہ ایسا بھی گذرا کہ قرآن پڑھنے والے کم ہی نظر آتے تھے، عربی میں اذان تک پر پابندی تھی، یہ کوئی معمولی عرصہ بھی نہیں تھا، 40 سے 50 سال تک یہ پابندی عائد رہی۔ لیکن شیخ کی کوششوں سے اس عرصہ میں ہزاروں کی تعداد میں حفاظ قرآن کریم تیار ہوئے۔ ہزاروں طلباء و طالبات کو اسلامی نہج پر تربیت دی گئی اور شیخ پوری دنیا میں لاکھوں لوگوں میں اسلامی بیداری پیدا کرنے کا ذریعہ بنے۔ جدید ترکی اور معاشرہ کی اصلاح میں آفندیؒ کا بڑا اہم رول رہا ہے، ایسے وقت میں جبکہ ترکی دہریت کی دہلیز پار کر چکا تھا، اسلامی شعائر کو پامال کیا جا رہا تھا؛ تب ’’مردے از غیب بیرون آید‘‘ کے مطابق اس مردِ مصلح نے توحید و اصلاح بلکہ اعلاء کلمہ حق کا آوازہ بلند کیا۔ اسی وجہ سے انہیں بعض اہل علم ترکیہ کا مجدد بھی کہتے ہیں۔ ترکی زبان میں آپ کی زبردست تفسير روح الفرقان عظیم علمی کارنامہ ہے۔ 2010 میں 42 ممالک کے 350 اسکالرز ممتاز ماہر تعلیم کی موجودگی میں شیخ محمود آفندی نقشبندی کو انسانیت کی خدمت کے لیے بین الاقوامی سمپوزیم ایوارڈ سے نوازنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ ایوارڈ پیش کرنے کی تقریب میں شرکت کے لیے ہزاروں اسکالرز استنبول پہنچے۔ اکتوبر کو استنبول میں ان کے لیے ایک اعزازی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ 24 اكتوبر 2010 کو انہیں امام محمد بن قاسم النانوتوی ایوارڈ سے نوازا گیا، جو اسلامی دعوت کے میدان میں اپنا اثر چھوڑنے والی شخصیات کو دیا جانے والا ایوارڈ ہے۔ یہ ایوارڈ بانی دارالعلوم دیوبند حجۃ الاسلام مولانا امام قاسم نانوتویؒ سے منسوب ہے۔ 2005 میں مسجد حرام کی تاریخ میں عجیب واقعہ ہوا۔ شیخ آفندی عمرہ کرنے آئے، وہ طواف کرنے مطاف میں داخل ہوئے تو 30 ہزار مریدین ساتھ تھے۔ سب ایک ہی انداز میں تلبیہ پڑھ رہے تھے اور ایک ہی انداز میں دعائیں مانگ رہے تھے۔ اس عجیب منظر کو عرب اور بین الاقوامی میڈیا میں خوب کوریج دی گئی۔ شیخ آفندی کی جماعت تشدد پر یقین نہیں رکھتی۔ یہ جماعت اپنے خاص لباس کے ساتھ اپنی پہچان رکھتی ہے۔ اس کی خواتین سیاہ لباس پہنتی ہیں، جسے ’’شرشف‘‘ کہا جاتا ہے۔ جس میں صرف آنکھیں نظر آتی ہیں۔ جبکہ مردوں کا لباس مشہور عثمانی طرز کا ہے۔ جس میں لمبی قمیص کے ساتھ شلوار، اوپر سے لمبا جبہ اور سر پر سفید عمامہ پہنا جاتا ہے۔ اس جماعت کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ فقہ حنفی پر نہایت شدت سے کاربند ہیں۔ اس لئے یہ سوائے مچھلی کے کوئی سمندری جانور کے گوشت کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ اسی طرح جتنی بھی سردی ہو، یہ جرابوں پر مسح نہیں کرتے۔ عربی نہایت فصیح لہجے میں بولتے ہیں۔ جبکہ قرآن فہمی بھی اس جماعت کا خاصہ ہے۔ استنبول ان کا مرکز ہے۔ خاص کرکے ’’علی عتیق‘‘ کا علاقہ ان کا گڑھ ہے۔ یہاں جا کر آپ کو مدینہ منورہ کا گمان ہوتا ہے۔ اس جماعت کا بہت بڑا ووٹ بینک ہے۔ اس لئے سیاسی قائدین شیخ کی خانقاہ میں حاضری دیتے رہتے ہیں۔ خاص کرکے صدر اردگان، سابق وزیراعظم احمد داؤد اوغلو وغیرہ یہاں آتے رہتے ہیں۔ ترک ذرائع کا کہنا ہے کہ 2016 میں اردگان کے خلاف کو ناکام بنانے میں بنیادی کردار اسی جماعت کا تھا۔ ترک جریدے ’’الزمان‘‘ کے مطابق شیخ آفندی کی جماعت کے وابستگان کی تعداد فتح گولن کے مریدین سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ کل آبادی کے کم ازکم 3 فیصد ہیں اور ہیں بھی نہایت منظم۔ مجموعی تعداد 30 لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں خواتین کا الگ شعبہ ہے۔ دینی مدارس کے ساتھ کئی تعلیمی اور رفاہی ادارے یہ لوگ چلا رہے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں