ختم نبوت
سوال : ...
ختم نبوت کا معنی اور مطلب اور اس کی اہمیت اور آپ کی ذات اطہر کے ساتھ اس منصب کی خصوصیات کو واضح طور پر بیان کر میں؟
جواب .......
ختم نبوت کا معنی اور مطلب:اللہ رب العزت نے سلسلہ نبوت کی ابتدا سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائی اور اس کی انتہا محمد عربی کی ذات اقدس پر فرمائی۔ آنحضرت پر نبوت ختم ہوگئی۔ آپ آخرالانبیاءہیں، آپ کے بعد کسی کو نبی نہ بنایا جائے گا۔اس عقیدہ کو شریعت کی اصطلاح میں عقیدہ ختم نبوت کہا جا تا ہے۔
عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت:
ختم نبوت کا عقیدہ وان اجتماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کئے گئے ہیں، اور عہد نبوت لے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آنحضرت بلا کسی تاویل اورتخصیص کے خاتم النبین ہیں۔ الف... قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ
class="poetryContent" dir="rtl">.....رحمت عالم کی احادیث متواترہ (دوسو دس احادیث مبارکہ سے یہ مسئلہ ثابت ہے۔
ج ........
حضرت کی امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر منعقد ہوا۔ چنانچہ امام احصر حضرت مولانا سیداحمد انور شاہ کشمیری اپنی آخری کتاب خاتم النبین میں تحریرفرماتے ہیں:
واول اجماع کے در میں امت منعقد شده اجماع برقل مسیلمہ کذاب بوده که بسبب دعوی نبوت بود، شنائع دگر وے صحابہ را بعدل اے معلوم شده، چنانکہ ابن خلدون آورد و سپس اجماع بلا فصل قرنا بعد قرآن بر کفر دارند ادل بدی نبوت مانده و یا تفصیلیے از بحث نبوت تشریعیہ وغیر تشریعی نبوده ‘‘
ترجمہ
اور سب سے پہلا اجماع جو اس امت میں منعقد ہوا وہ مسیلمہ کذاب کے قتل پر اجماع تھا، جس کا سبب صرف اس کا دعوی نبوت تھا، اس کی دیگر گھناؤنی حرکات کا علم صحابہ کرام کو اس کے قتل . کے بعد ہوا تھا، جیسا کہ ابن خلدون نے نقل کیا ہے، اس کے بعد قرنا بعد قرن مدعی نبوت کے کفر دارتداداور قتل پر ہمیشہ اجماع بلافصل رہا ہے، اور نبوت تشریعی یا غیر تشریعیہ کی کوئی تفصیل بھی زیر بحث نہیں آئی۔‘‘ (خاتم النبین ص: ۱۷، ترجمہیں: ۱۹۷)
حضرت مولانا محمد ادریس کا میرعلوی نے اپنی تصنیف " مسک الخام فی ختم نبوت سید الا نام میں تحریر فرمایا ہے کہ:
امت محمدیہ میں سب سے پہلا اجماع جو ہوا، وہ اس مسئلہ پر ہوا کہ مدعی نبوت کوقتل کیا جائے‘‘ (احتساب قادیانیت ج:۲،ص:۱۰) (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ و دفاع کے لئے جتنی جنگیں لڑی گئیں، ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرام ی کل تعداد ۳۵۹ ہے) (رحمۃ للعالمین ج ۳ سی ۲۱۳ قاضی سلمان منصور پوری) اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ و دفاع کے لئے اسلام کی تاریخ میں پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبر کے عہد خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی ، اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہ اور تابعین کی تعداد بارہ سو ہے (جن میں سے سات سو قرآن مجید کے حافظ اور عالم تھے ) ۔ (ختم نبوت کامل می ۳۰۴ ص سوم از مفتی مشفق ومرقاة المفاتح ج ۲۳۳۵) رحمت عالمﷺ کی زندگی کی کل کمائی اور گراں قدراتا و حضرات صحابہ کرام میں ،جن کی بڑی تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے جام شہادت نوش کر گئی۔اس سے ختم نبوت کےعقیدہ کی عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ انہی حضرات صحابہ کرام میں سے ایک صحابی حضرت حبیب بن زید انصاری خزرج کی شہادت کا واقعہ ملاحظہ ہو:
حيـب بـن زيـد ...... الانـصـاري الخزرجي .. هـوالـذي ارسلـه رسـول الـلـه الى مسيلمة الكذاب الحنفى صاحب اليمامه فكان مسيلمة اذا قال له اتشهد ان محمدا رسول الله قال نعم واذا قال انشهد اني رسول الله قال انا اصم لا اسمع ففعل ذلك مرارا فقطعه مسيلمة عضواعضوا فمات شهیدا۔ (اسدالغابه في معرفة الصحابه ج:۱،ص:٤٢١ طبع بیروت
ترجمہ:
حضرت حبیب بن زید انصاری کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا، مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیب سے کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ مراللہ کے رسول ہیں؟ حضرت حبیب نے فرمایا ہاں، مسیلمہ نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ ) بھی اللہ کا رسول ہوں؟ حضرت حبیب نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا ہوں تیری یہ بات نہیں سن سکتا، مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا ، وہ یہی جواب دیتے رہے اور مسیلمہ ان کا ایک ایک عضو کا ٹتا رہا حتی کہ حبیب بن زید کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کو شہید کر دیا گیا۔
اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام مسئلہ ختم نبوت کی عظمت و اہمیت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے،
اب حضرات تابعین میں سے ایک تابعی کا واقعہ بھی ملاحظہ ہو:
حضرت ابو مسلم خولانی جن کا نام عبداللہ بن ثوب ہے
اور یہ امت محمدیہ (علی صاحبها السلام) کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں جن کے لئے اللہ تعالی نے آگ کو اسی طرح بے اثر فرمادیا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش نمرود کو گلزار بنادیا تھا۔ یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے اور سرکار دو عالم کے عہد مبارک ہی میں اسلام لا چکے تھے لیکن سرکار دو عالم کی خدمت میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا۔ آنحضرت کی حیات طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کا جھوٹا دعویدار اسودعنسی پیدا ہوا۔ جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے کے لئے مجبور کیا کرتا تھا۔ اس دوران اس نے حضرت ابومسلم خولانی کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی ، حضرت ابو مسلم نے انکار کیا پھر اس نے پوچھا کہ کیا تم محمد کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو؟ حضرت ابو سلم نے فرمایا ہاں، اس پر اسودعنسی نے ایک خوفناک آگ دہکائی اور حضرت ابو مسلم کو اس آگ میں ڈال دیا لیکن اللہ تعالی نے ان کے لئے آگ کو بے اثر فرمادیا، اور وہ اس سے صحیح سلامت باہر نکل آئے ۔ یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسودعنسی اور اس کے رفقا پر ہبیت کی طاری ہوگئی اور اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلا وطن کر دو، ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیروؤں کے ایمان میں تزلزل آ جاۓ گا، چنانچہ انہیں یمن سے جلاوطن کر دیا گیا۔ چناچہ یمن سے نکل کر ایک ہی جائے پناہ تھی یعنی مدینہ منورہ، چنانچہ یہ سرکار دو عالم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے چلے لیکن جب مدینہ منورہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آ فتاب رسالت روپوش ہو چکا ہے ۔ آنحضرت وصال فرماچکے تھے، اور حضرت صدیق اکبر خلیفہ بن چکے تھے، انہوں نے اپنی اونٹنی مسجد نبوی کے دروازے کے پاس بٹھائی اور اندر آ کر ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کر دی۔ وہاں حضرت عمر موجود تھے ۔ انہوں نے ایک اجنبی مسافر کو نماز پڑھتے دیکھا تو ان کے پاس آئے اور جب وہ نماز سے فارغ ہو گئے تو ان سے پوچھا: آپ کہاں سے آئے ہیں؟ یمین سے! حضرت ابوسلم نے جواب دیا۔ حضرت عمر نے فورا پوچھا: اللہ کے دشمن (اسودعنسی) نے ہمارے ایک دوست کو آگ میں ڈال دیا تھا، اور آگ نے ان پر کوئی اثر نہیں کیا تھا، بعد میں ان صاحب کے ساتھ اسود نے کیا معاملہ کیا؟ حضرت ابو سلم نے فرمایا: ان کا نام عبداللہ بن ثوب ہے۔ اتنی دیر میں حضرت عمر کی فراست اپنا کام کر چکی تھی ، انہوں نے فورا فرمایا: میں آپ کو قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ ہی وہ صاحب ہیں؟ حضرت ابومسلم خولانی نے جواب دیا: جی ہاں !‘‘ حضرت عمر نے یہ سن کر فرط مسرت ومحبت سے ان کی پیشانی کو بوسہ دیا، اور انہیں لے کر حضرت صدیق اکبر کی خدمت میں پہنچے ،انہیں صدیق اکبر کے اور اپنے درمیان بٹھایا اورفرمایا اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہ کے اس شخص کی زیارت کرادی جس کے ساتھ اللہ تعالی نے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جیسا معاملہ فرمایا تھا۔‘‘ (حلیۃ الاولیا ص ۱۲۹، ج۲، تہذیب ج ۶ ص ۴۵۸، تاریخ ابن عساکر م ۳۱۵، ج ۷، جہاں دیدہ ۲۹۳ وتر جمان النص ۴۳۳۱)
منصب ختم نبوت کا اعزاز قرآن مجید میں ذات باری تعالی کے متعلق رب العالمین آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ذات اقدس کے لئے ’’رحمۃ للعالمین‘‘ قرآن مجید کے لئے’’ذکر للعالمین‘‘ اور بیت اللہ شریف کے لئے ھدی للعالمین فرمایا گیا ہے، اس سے جہاں آنحضرتﷺ کی نبوت ورسالت کی آفاقیت و عالمگیریت ثابت ہوتی ہے، وہاں آپ کے وصف ختم نبوت کا اختصاص بھی آپ کی ذات اقدس کے لئے ثابت ہوتا ہے ، اس لئے کہ پہلے تمام انبیا علیہم السلام اپنے اپنے علاقہ مخصوص قوم اور مخصوص وقت کے لئے تشریف لاۓ ، جب آپ تشریف لائے تو حق تعالی نے کل کائنات کو آپ کی نبوت و رسالت کے لئے ایک اکائی
ون یونٹ بنا دیا
جس طرح کل کائنات کے لئے اللہ تعالی رب‘‘ ہیں ، اسی طرح کل کائنات کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) نبی ہیں ۔ یہ صرف اور صرف آپ کا اعزاز و اختصاص ہے۔ آنحضرت نے اپنے لئے جن چھ خصوصیات کا ذکر فرمایا ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔
"ارسلت الى الخلق كافة وختم بي النبيون“
ترجمہ: میں تمام مخلوق کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا اور مجھ پر
نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔‘‘ ( متلو ۵۱۲ باب فضائل سیدالمرسلین، مسلم ج ۱ص ۱۹۹ کتاب المساجد )
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) آخری نبی ہیں، آپ کی امت آخری امت ہے، آپ کا قبلہ آخری قبلہ (بیت اللہ شریف) ہے، آپ پر نازل شدہ کتاب آخری آسمانی کتاب ہے۔ یہ سب آپ کی ذات کے ساتھ منصب ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیں جو اللہ تعالی نے پورے کر دیئے، چنانچہ قرآن مجید کو ذکر للعالمین اور بیت اللہ شریف کو ھدی للعالمین کا اعزاز بھی آپ کی ختم نبوت کے صدقے میں ملا۔ آپ کی امت آخری امت قرار پائی جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "انا آخر الانبيا وانتم آخر الامم حضرت علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ خصائص الکبری‘‘ میں آنحضرت کا خاتم النبیین ہونا آپ ہی کی خصوصیت قرار دیا ہے ۔ (دیکھئے ج ۳ (ابن ماجه ۳۹۷)
(۲۸۳۱۹۷ ۱۹۳۰ ای طرح امام العصر علامہ سید عمد انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:
’’وخاتم بودن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) از میان انبیا له بعض خصائص و کمالات مخصوصہ کمال ذاتی ( خاتم النین فاری ص۲۰)
ترجمہ: اور انبیا میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا خاتم ہونا ، آپ کے مخصوص فضائل و کمالات میں سے خود آپ کا اپنا ذاتی کمال ہے ۔‘‘ (خاتم النبیین اردوس: ۱۸۷)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں