عقائد متعلقہ ذات و صفات باری تعالی شانہ
عقیده اول.....
اثبات صانع عالم و اثبات حدوث عالم اللہ تعالی اپنی قدیم ذات اور صفات کے ساتھ خود بخو دموجود اور موصوف ہے اور اس کے سوا تمام اشیاء اسی کی ایجاد سے موجود ہوتی ہیں اور اسی کے پیدا کرنے سے عدم سے وجود میں آئی ہیں۔ خدا تعالی کو خدا اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ خود بخود ہے اس کی ہستی خوداسی سے ہے اور اس کی ذات و صفات کے سوا تمام عالم اور اس کی تمام اشیاء حادث اور نو پیدا میں عدم سے وجود میں آئی ہیں۔ (۱) اس لئے جہاں کی کوئی شے ایک حال پر قائم نہیں تغیر اور تبدل کی آماجگاہ اور فنا اور زوال کی جولانگاہ بنی ہوئی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ عالم خود بخو دموجود نہیں ہوا۔ بلکہ اس کا وجود اور ہستی کسی اور ذات کا عطیہ ہے پس وہ ذات بابرکات جو تمام اشیاء کے وجود اور ہستی کی مالک ہے اس کو ہم اللہ اور خدا اور مالک الملک کہتے ہیں اور اصل مالک اور مالک حقیقی بھی وی ہے کہ جس کے قبضہ قدرت میں تمام کائنات کا وجود ہو خوب سمجھ لو کہ حقیقی جو وجود کا مالک ہے اور جو وجود کا مالک نہیں وہ حقیقی مالک نہیں ۔ (۲) نیز عالم کی جس چیز پر بھی نظر ڈالو گے احتیاج اور ذلت اور پستی عاجزی اور لا پارگی کے آثار نظر آئیں گے معلوم ہوا کہ یہ عالم اور عالم کی کوئی چیز خود بخودنہیں ، اگر کوئی چیز خود بخود ہوتی تو خدا ہوتی اور کسی کی محتاج اور دست نگر نہ ہوتی ۔سراپا عاجزی ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو وگرنہ ہم خدا ہوتے جو دل بے آرزو ہوتا (۳) علامہ احمد بن مسکویہ اپنی کتاب ”الفوز الاصغر میں فرماتے ہیں آسمان سے لے کر زمین تک کوئی شئے تم کو ایسی نظر نہ آئے گی جو حرکت سے خالی ہو، اور حرکت کی چھ قسمیں ہیں: (۲) حرکت فساد۔ (۳) حرکت نمو۔ (۱) حرکت کون ۔ (۴) حرکت نقصان۔ (۵) حرکت استحالہ۔ (۷) حرکت نقل ۔ اور یہ امر بھی مشاہدہ سے ثابت ہے کہ کوئی حرکت ایک حال اور منوال پر نہیں معلوم ہوا کہ کسی چیز کی حرکت ذاتی نہیں یعنی اس کی ذات سے نہیں بلکہ کسی محرک سے ہے کہ جو ان کی ذات کے علاوہ ہے پس وہی ہے محرک حقیقی جس کے ہاتھ میں یہ تمام عالم کی حرکتیں ہیں وہی خدا ہے جوان بیٹیوں کے ذریعہ اپنی قدرت کا تماشہ دکھلا رہا ہے دہر میں اور منکرین خدا کا رد تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء آفرینش عالم سے اس وقت تک دنیا کے ہر حصہ اور خطہ میں تقریبا سب کے سب خدا تعالی کے قائل رہے اور دنیا کے تمام مذاہب اور مل اور ادیان سب اس پر متفق ہیں کہ خدائے برحق موجود ہے اس نے اپنی قدرت اور ارادہ سے اس عالم کو پیدا کیا ہے۔
مادہ پرستوں کا گروہ جن کا دوسرا نام منکرین مذہب ہے وہ نہایت بے باکی کے ساتھ خدا کے وجود کا منکر ہے اور یہ کہتا ہے کہ خدا کا کوئی واقعی وجود نہیں ۔ خدائش ایک موہوم اور فرضی شے ہے جس کو انسانی دماغ نے قوانین طبعیہ سے مرعوب ہو کر اختراع کرلیا اور تمام اعمال و افعال اور تمام اقوال و احوال بلکہ تمام کائنات میں اس کو مدبر اور متصرف سمجھ کر اپنے وجود کی باگ اس کے ہاتھ میں دے دی اور بے وجہ اپنی امید وبیم کو اس کے ساتھ وابستہ کرلیا اور اس کو اپنا معبود سمجھ لیا مادہ پرست کہتے ہیں کہ اہل مذاہب کو ایک مافوق الفطرت ہستی ماننے کی کوئی ضرورت بھی نہیں، یہ لوگ عالم کے تغیرات اور حوادث سے گھبرا کر اور ڈر کر ایک فرضی خدا کے قائل ہو گئے ۔ حوادث اور تغیرات کے لئے خدا کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں مادہ بھی قدیم ہےاور اس کی حرکت بھی قدیم ہے۔ مادہ سے مراد وہ نہایت چھوٹے چھوٹے اجزاء اور ذرات ہیں جن کوعلمی اصطلاح میں اجزاء دیمقراطیہ کہتے ہیں اور انہی ذرات کو اشیر (یعنی انجیر سے بھی تعبیر کرتے ہیں رفتہ رفتہ ان اجزاء میں اختلاط اور ترکیب پیدا ہوئی اس سے یہ تمام عالم پیدا ہو گیا۔ تحقیقات جدیدہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عالم کی تمام ساوی اور ارضی چیزوں کی اصل دوچیزیں ہیں مادہ اور اس کی حرکت اور دونوں قدیم اور متلازم ہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سے جس طرح معلول اپنی ملت سے بے اختیار بن جاتا ہے ، اسی طرح یہ تمام آسمان اور زمین اور کواکب اور سیارات اور اشتہار اور نباتات مادہ اور اس کی حرکت سے خود بخود بن گئے ۔ لہذا ہم کو خدا مانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہمیں اس کی ضرورت ہے کہ اپنی گردن میں مذہبی طوق و سلاسل پھانسیں اور گراں بار نہیں۔ ہمیں خدا کی بالکل ضرورت نہیں بلکہ مادہ اور اس کی قوانین فطر یہ اس عالم کی بستی اور بقاء کے کفیل اور ذمہ دار ہیں ۔ یہ ہے منکرین خدا کی دلیل جس کو آپ نے سن لیا جس میں سواۓ فرضی ، خیالی تخمینی اور یے رابطہ مقدمات کے کچھ بھی نہیں ۔ سب متکبرانہ اورمفرورانہ دعوے ہیں جن پر کوئی دلیل نہیں ۔ ہم خدا پرست یہ کہتے ہیں کہ مادہ پرستوں نے اپنے زعم اور خیال میں ان کا ئنات ساوی اور ارضی کا ایک خاص سبب اپنے دماغ سے اختراع کر کے پیش کر دیا جس پر جزء لاستجوی کے برابر بھی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں لیکن جس سبب کی ہم کو تلاش تھی اس میں ہم کو کامیابی نہیں ہوئی۔ ہمیں تلاش اس کی ہے کہ یہ قصر کائنات جو عجیب وغریب تناسب اور ترتیب پر مشتمل ہے اور جس کا ہر ہر جز گنجیئے اسرار و کم ہے اور ماہرین علم افلاک اور علم طبقات الارض اور ماہرین علم حیوانات اور علم نباتات ان کے دقائق اور اسرار کے ادراک سے قاصر اور درماندہ ہیں۔ یہ قصر کائنات کس طرح وجود میں آیا اور اس کے وجود کا سبب کیا ہے؟ ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ کائنات کا یہ نظم اور مرتب نظام خود اپنے اندر سے یہ بول رہا ہے کہ میرا بنانے والا اور میرا چلانے والا نہایت ہی علم و حکمت اور نہایت ہی قوت اور قدرت والا ہے اور موصوف ہمہ صفات ہے۔ مادہ پرستوں کا گروہ یہ کہتا ہے کہ یہ تمام عالم مادہ اور اس کے غیر مرئی ذرات کی اتفاقی اور اضطراری حرکتوں کا نتیجہ ہے اور مادہ پرست اس کے قائل ہیں کہ مادہ بالکل اندھا اور بہرا اور گونگا اور بے حس اور بے شعور ہے۔ نہ دیکھتا ہے اور نہ سنتا ہے اور نہ بولتا ہے اور کوئی کام اس کا قصد اور اختیار سے نہیں اور نہ اس کو کسی تناسب اور ترتیب کا علم ہے اور نہ اس میں اس کی قدرت کو دخل ہے اور نہ یہ مادہ کسی قاعدہ سے واقف ہے عالم کی یہ تمام عجیب و غریب کا ئنات محض بخت و اتفاق سے معرض وجود میں آگئی۔ پس مادہ پرستوں نے اس مرتب اور متناسب نظام کائنات کا سبب مادہ کو قرار دیا گویا کہ ایک اندھے اور بہرے اور بے شعور اور بے حس مادہ کو اپنا خدا مان لیا اور سر تسلیم اس کے سامنے خم کر دیا بلکہ اس کے قدموں پر ڈال دیا اگر چہ نام
نتیجہ قرار دینا ایسا ہی ہے
خوش قلم کتاب کی مثال
جیسے کسی نہایت خوش قلم کتاب کے نقوش کو یہ دیکھ کر یہ کہنا کہ یہ کتاب کسی ماہر خوش نویس کی لکھی ہوئی نہیں بلکہ یہ تمام کتابی نقوش ( جو عجیب و غریب علوم و معارف پر مشتمل ہیں ) مادہ سیاہی اور اس کی اتفاقی حرکت کا نتیجہ ہیں۔
گھڑی کی مثال
جب ہم کسی گھڑی کو دیکھتے ہیں جس سے وقت معلوم ہوتا ہے تو اس کے عجیب وغریب، انضباط اور استحکام اور کل پرزوں کی حرکت کو دیکھ کر یقین کر لیتے ہیں کہ اس کا بنانے والا قواعد ندسیہ کا بڑا ہی ماہر ہے اور اگر کوئی یہ کہے کہ اس گھڑی کا بنانے والا ایک ایسا شخص - ں ہے کہ جو ندھا اور بہرا اور ناسمجھ اور بے خبر اور علم ہندسہ اور کل سازی کے اصول سے بالکل ناواقف ہے (یعنی مادہ ) تو کوئی ادنی عقل والا اس کی تصدیق کے لئے تیار نہ ہوگا۔ یا مثلا اگر کوئی یہ کہے کہ میگھڑی کسی کاری گر کی بنائی ہوئی نہیں بلکہ یہ تمام پرزے مادہ اور اس کی حرکت سے خود بخود اس خاص ہیت پر بن گئے اور پھر اس کے بعد جب ان پرزوں میں دوبارہ حرکت ہوئی تو یہ خود بخو دمرکب ہو گئے اور اپنے اپنے موقعہ پر لگ کر گھڑی خود بخود تیار ہو گئی اور خود بخود چلنے لگی تو سامعین اور محقق سائنس دان اس تقریر دلپذ یر کو سن کر قہقہہ لگائیں گے۔ کون عاقل اس کو قبول کر سکتا ہے کہ عالم کے یہ عجیب وغریب تنوعات اور تطورات ایک بے جان اور بے حس اور بے شعور مادہ کی ازلی حرکات کے ثمرات اور نتائج ہیں۔ آپ سے ہمارا سوال یہ ہے تنوعات اور تطورات تمام کے تمام آپ کے نزدیک حادث ہیں۔ (جیسا کہ علم طبقات الارض اور علم طبقات الافلاک کے ماہرین نے اس کی تشریح کی ہے اس لئے کہ پہلے نہ تھے اور بعد میں پیدا ہوئے اور یہی حقیقت حدوث کی ہے پر اگر ان تنوعات حادثہ کی علت ماده قدیمہ اور اس کی حرکت از یہ ہے تو پھر یہ تمام تطورات اور تنوعات بھی قدیم ہونے چاہئیں اس لئے کہ جب علت قدیم ہے تو معلوم بھی قدیم ہونا چاہیے۔ ہاں اگر یہی صورت ہوتی کہ مادہ اپنے ارادہ اور اختیار سے ان تنوعات کا موجد ہوتا تو یہ کہہ سکتے تھے کہ واجب الوجود اور قدیم کے ارادہ سے جو چیز پیدا ہوگی وہ اس کے ارادہ اور اختیار کے تابع ہوگی اس لئے وہ حادث ہو گئی اور موجد حادث نہ ہوگا لیکن آپ مادہ میں کسی قسم کے حیات اور شعور اور ارادہ کے قائل نہیں اور اگر آپ یہ کہیں کہ ابھی تک مادہ میں خاص استعداد پیدا نہ ہوئی تھی اس لئے یہ انواع واقسام اب تک ظہور اور وجود میں نہ آئے تو ہم یہ سوال کریں گے کہ اس استعداد کی علت بھی تو وہی مادہ قدیمہ اور اس کی حرکت از لیہ ہے لہذا یہ استعداد قدیم ہونی چاہئے اس لئے کہ اس کی علت قدیم ہے پھر کیا وجہ ہے کہ صد ہا اور ہزار ہا سال گزر گئے مگر اس خاص نوع کے پیدا ہونے کی استعداد اور صلاحیت مادہ کے ذرات میں نہ پیدا ہوئی۔ غرض یہ کہ ان فرضی اور خمینی باتوں سے عقل سلیم اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ یہ بے شعور اور بے جان مادہ ہر وقت عالم کے بے شمار عجیب وغریب انواع و اقسام کو اس محیر المعقول انضباط اور استحکام کے ساتھ پیدا کرتا رہا ہے اور غیر متناہی زمانہ تک اسی طرح غیر متناہی سلسلہ چلتا رہے گا
مکان کی مثال
ایک مکان کو دیکھ کر بے تامل اس بات کا یقین آ جاتا ہے کہ اس کا بنانے والا کوئی ضرور ہے تو کیا اتنا بڑا امکان جس کا فرش زمین ہوادر چت اس کی آسان ہو اس کو دیکھ کر یہ یقین نہ آۓ گا کہ اس کا بنانے والا نہایت قدیر وعلیم اورنبیر حکیم ہے۔ بتاتا قدرت کا نظام ہے کا سب تو صانع و منتظم ہے عارف جامی فرماتے ہیں۔ خانہ بے صنع خانه ساز که دید نقش بیدست خامه نقاش زن کی شنید رہا یہ سوال کہ وہ بنانے والا کون ہے اور کہاں ہے جب تک ہم اس کو نہ دیکھ لیں کیسے مانیں؟ سو یہ سوال احمقانہ اور جاہلانہ ہے ۔ ماننے کے لئے دیکھنا شرط نہیں عقل اور روح کے وجود کے آپ بھی قائل ہیں ۔ مگر آپ نے بلکہ کسی نے بھی آج تک عقل اور روح کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ ند یکھنا انکار کی دلیل نہیں بن سکتا۔ عقل پردہ کے پیچھے سے حکم دیتی ہے اور لوگ اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ جب تک ہم عقل کو اپنی آنکھ سے نہیں دیکھ لیں گے اس وقت تک عقل کا کوئی حکم نہیں مانیں گے۔ نیز سائنس دان می بتلائیں کہ انہوں نے مادہ اور اس کے اجزاء اور اس کی حرکت کا کب مشاہدہ کیا ہے؟ نہ پہلے کیا ہے اور نہ آئندہ کرسکیں گے۔ دعوی تو یہ تھا کہ ہم جب تک کسی چیز کا مشاہدہ نہ کرلیں اس وقت تک اس چیز کو نہیں مانتے ۔ آپ کا وہ قاعدہ کہاں گیا کہ جس کی بنا پر آپ خدا کا انکار کر رہے تھے مادہ پرستوں نے اس قسم کے قواعد ۔ عالم آخرت کی چیزوں کے نہ ماننے کے لئے بنا رکھے ہیں اور دلیل ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔ عارف روی قدس اللہ سرہ السامی فرماتے ہیں ۔ پنہاں و قلم میں خط گزار رست اسپ در جولان ناپدا سوار پر یقین در عقل بر راننده است این که با جنده جنا ننده است گر تو آن رای نه بینی در نظر فہم کن با ظہار اثر تن بجاں جنید نمی بینی تو جاں لیک از جنبیدن تن جان بدال جولوگ محسوسات اور مشاہدات کے گرفتار ہیں اور نظر وفکر کے عادی نہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی کوئی چیز بغیر کسی چیز کے پیدا نہیں ہوسکتی جس طرح ایک انسان دوسرے انسان سے اور ایک حیوان دوسرے حیوان سے پیدا ہوتا ہے اسی طرح یہ عالم بھی مادہ سے پیدا ہوا ہے عدم م سے وجود میں نہیں آیا۔ یہ خیال بالکل غلط ہے ان لوگوں نے خدا کی قدرت کو بندہ کی قدرت پر قیاس کیا کہ جس طرح بڑھتی اور کمہار۔ بغیر تختہ اور مٹی کے تخت اور کوز نہیں بناسکتا۔ اسی طرح معاذ اللہ خدا بھی بغیر مادہ کے عالم کو نہیں بنا سکتا ۔ حالانکہ یہ لوگ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عالم کی اشیا متغیرہ ینی صورتیں اور خطوط اور نقش و نگار اور تمام اعراض اور کیفیات کسی چیز (مادہ) سے پیدانہیں ہوئیں بلکہ محض عدم سے وجود میں آئی ہیں پس جب اعراض اور کیفیات بندہ کی قدرت سے بدون مادہ کے عدم سے وجود میں آسکتے ہیں تو جواہر اور اجسام خداۓ واجب الوجود کی قدرت قدیمہ اور ازلیہ سے بدون مادہ کے محض عدم سے کیوں وجود میں نہیں آسکتے ۔
معلوم ہوا کہ یہ خیال کہ موجودہ موجود ہی سے پیدا ہوسکتا ہے خیال باطل ہے اس لئے کہ تکوین اور ایجاد اور ابداع ( یہ سب ہم معنی الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے اور ابداع کے معنی ۔ ایجاد الشي لامن شنے کے ہیں یعنی کسی نیز کو بغیر کسی چیز ( مادہ ) کے پیدا کرنے کے ہیں موجود سے موجود کو نکالنے کا نام ابداع نہیر علی ہذا ایجاد کے معنی وجود عطا کرنے کے ہیں اور وجود معدوم ہی کو عطا کیا جاتا ہے موجود کو وجود عطا کر تحصیل حاصل ہے اور دو موجود کو ملا کر کوئی چیز بنانا اس کا نام ترکیب ہے لغت اور عرف میں اس کو ایجاد نہیں کہتے ۔ اس مسئلہ کی پوری تفصیل علم الکلام مصنفہ ناچیز میں ملاحظہ فرمائیں۔ انشاء اللہ تعالی اطمینان ہو جاۓ گا۔
حضرت مولانا شاہ سید محمد انور کشمیری قدس اللہ سرہ سابق صدر مدرس دارالعلوم دیو بند فرماتے ہیں مجموعه کون بود درکتم عدم از حرف گون آورد بایں زیر قدم فعلی است که بے مادہ قدرت او کرد کز ضرب وجودے بعد نیست قدم . یہ تمام عالم پہلے پردا عدم میں تھامش حرف کن سے اس بت خانہ کو نیا میں اس نے قدم رکھا ہے ۔ یہ خداوند قدوس کا ایک فعل ہے جو بغیر مادہ کے اس دست قدرت سے ظاہر ہوا ہے اس لئے کہ وجود و عدم میں ضرب دینے سے حاصل ضرب قدیم نہیں نکل سکتا بلکہ حادث ہی نکلے گا یا اس طرح کہئے کہ جب ممکن کے عدم ذاتی کو واجب الوجود کے قدیم میں ضرب دیں لینی اول کا ثانی سے تعلق اور ربط پیدا کر میں تو حاصل ضرب یا نتیجتعلق سواۓ حدوث زمانی کے اور کچھ نہیں نکلے گا
منکرین خدا کے مقابلہ میں علماء ربانین کی تین حکایتیں
حکایت(۱):
ایک مرتبہ دھر یہ (منکرین خدا) کا ایک گروہ امام اعظم ابو حنیفہ بھی کی خدمت میں قتل کے ارادہ سے حاضر ہوا۔ امام اعظم نے فرمایا تم ایسے شخص کے بارہ میں کیا کہتے ہو کہ جو یہ کہے کہ میں نے دریا میں سامان سے بھری ہوئی ایک کشتی دیکھی ہے جو اس کنارے سے خود بخو دسامان لے جاتی ہے اور دوسرے کنارہ پر لے جا کر اتار دیتی ہے اور دریا کی موجوں کو چیرتی ہوئی سیدھی نکل جاتی ہے اور کوئی ملاح اس کے ساتھ نہیں ۔ خود بخور سامان اس میں لد جا تا ہے اور خود بخود اتر جاتا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ بات تو ایسی خلاف عقل ہے کہ کوئی عاقل اس کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ امام اعظم نے فرمایا افسوس تمہاری عقلوں پر جب ایک کشتی بغیر ملاح کے نہیں چل سکتی تو سارے عالم کی کشتی بغیر ملاح کے کیسے چل سکتی ہے؟ تمام لوگ یہ استدلال سن کر دنگ رہ گئے اور سب کے سب تائب ہو کر آپ کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہو گئے۔
حکایت (۲):
امام مالک سے کسی نے وجود صانع کی دلیل پوچھی تو یہ فرمایا کہ آدمی کا پیرو دیکھو کتنا چھوٹا ہوتا ہے اور ہر آدمی کے چہرے میں آنکھ اور ناک اور کان اور زبان اور رخسار اور ہونٹ وغیرہ وغیرہ سب چیز میں موجود ہیں مگر باوجود اس کے کہ کسی ایک کی بھی صورت اور شکل دوسرے سے نہیں ملتی اور کسی کی آواز دوسرے کی آواز سے نہیں ملتی اور کسی حال و حال دوسرے سے نہیں ملتی غرضیکہ صورتوں اور شکلوں کا الگ الگ ہونا اور آوازوں اور بچوں کا اور اعضاء اور جوارح کا مختلف ہوتا یہ خدا کی کاری گری ہے جس نے ہر ایک کو ایک خاص ہیئت اور صورت عنایت فرمائی کہ جو دوسرے میں نہیں پائی جاتی ۔ کسی بے شعور مادہ اور تیر کی کاری گری نہیں ۔
حکایت (۳):
امام شافعی رہنے سے کسی دھریہ نے وجود صانع کی دلیل پوچھی تو فرمایا کہ توت کے پتوں کو دیکھو کہ سب کا رنگ اور مزہ اور بو اور طبیعت اور خاصیت ایک ہے مگر جب اس پے کو ابریشم کا کیڑا کھاتا ہے تو ریشہ ہوتا ہے اور جب اس کو شہد کی مکھی کھاتی ہے تو شہد کھتا ہے اور جب اس کو بکری کھاتی ہے تو مینگنی بن کر نکلتا ہے اور جب اس کو تا تاری ہرن کھا تا ہے تو مشک بن کر لکھتا ہے حالانکہ شئے ایک ہی ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ اختلاف اور تنوع کسی علیم وقد برکی کاری گرمی ہے مادہ اور طبیعت کا اقتضا نہیں۔ ورنہ مادہ سب کا ایک ہی ہے.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں