اہل سنت والجماعت
اہل سنت والجماعت
یہ اہل حق کا گروہ ہے یہ کہتا ہے کہ گزشتہ دونوں فریق غلطی اور گمراہی پر ہیں ۔ فرقہ مشبہ گویا که در پرده آیات تنزیه لیس کمثله شیء کا منکر ہے اور فرقہ معتزلہ گویا کہ در پردہ آیات متشابہات کا منکر ہے اور ظاہر ہے کہ آیات تنزیہ کا انکار بھی گمراہی ہے اور آیات متشابہات کا انکار بھی گمراہی ہے۔
اہل حق کا گروہ یہ کہتا ہے حق یہ ہے کہ ان صفات کو حق تعالی کے لئے ثابت تسلیم کر میں اور اپنی راۓ اور قیاس سے اور اپنے کشف اور الہام سے ان کی حقیقت معلوم کرنے کی سعی نہ کر میں اور جس طرح ہی صفات متشابہات کتاب وسنت صحیحہ سے ثابت ہوئی ہیں ان کو بے چون و چرا تسلیم کر یں اور معتزلہ کی طرح در پے تاویل نہ ہوں تا کہ قدریہ اور معتزلہ کی طرح ان صفات متشابہات کا انکار لازم نہ آۓ جو کتاب وسنت سے ثابت ہیں اور مشبہہ اور مجسمہ کی طرح میں نہ کہے کہ معاذ اللہ یاللہ کے اعضاء اور اجزاء ہیں اور اس طرح نہ کہے کہ اللہ عرش پر بیٹھا ہے تا کہ مشبہ کی طرح آیات تنزیہ اور تقدیس کا انکار لازم نہ آۓ حق تعالی کی جو صفات قرآن اور حدیث سے ثابت ہیں ان پر ایمان لائے اور ان کی حقیقت اللہ کے سپردکرے اور تنزیہ اور تقدیس کے لئے لیس کمثله شی زبان سے کہے اور دل سے اعتقادر کھے کہ جس طرح با تفاق عقلا حق تعالی سمیع اور بصیر ہے اور اس کا سننا اور دیکھنا ہمارے سننے اور دیکھنے کے مشابہ نہیں پس اسی طرح اس کا ہاتھ اور قدم ہمارے ہاتھ اور قدم کے مشابہ ہیں۔ اہل حق کے گروہ نے نہ تو معتزلہ کی طرح ظاہر کی نفی میں اتنا غلو کیا کہ حد تعطیل تک پہنچ جاۓ اور نہ مشبہ کی طرح ظاہر پر اس درجہ جمود کیا کہ تشبیہ اور تمثیل میں جاپڑ تے بلکہ دم تعطیل
اور تشبیہ اور تمثیل کے فرق کے درمیان سے ایک لین حاصل نکال لیا اور خود بھی پیا اور شارمین
کرام کو بھی پلایا۔ تمام سلف صالحین اور ائمہ اربعہ کا یہی عقیدہ ہے ۔ چنانچہ فقہ اکبر میں امام اعظم
ابوحنیفہ فرماتے ہیں: "لما ذكر الله في القرآن من ذكر الوجه وأب، والنفس والعين فهو له صفات ولا يقال أن يدة قدرته ونعمته لان فيه إبطال الصفة وهو قول أهل القدر والاعتزال ولكن بده صفته بلا كيف انتهى"
یعنی قرآن کریم میں جو اللہ تعالی نے وجہ اور ید اور نفس اور مین کا ذکر کیا ہے وہ سب اللہ تعالی کی صفات ہیں۔ اور یہ نہ کہنا چاہئے کہ یہ سے اللہ کی قدرت یا نعمت مراد ہے اس لئے کہ اس طور سے اللہ کی صفات کو باطل کرنا لازم آتا ہے اور یہ قول معتزلہ کا ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ید اللہ تعالی کی ایک صفت ہے جو کم اور کیف سے پاک اور منزہ ہے اور حقیقت اس کی اللہ تعالی کو معلوم ہے۔“
اور یہی امام مالک اور امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور ائمہ حدیث سے منقول ہے ایک انسان ضعیف البیان اور قاصر اللسان کے لئے یہ نہایت دشوار ہے کہ وہ خداوند ذوالجلال کی ذات و صفات اور اس کے کمالات کوٹھیک ٹھیک بیان کر سکے صرف اتنا کر سکتا ہے کہ ممکنات میں ہم جن صفات کو سب سے اعلی اور بہتر سمجھتے ہیں۔ ان کو خدا تعالی کے لئے ثابت کر میں اور جب دو لفظ متقابل بمعنی ہمارے سامنے ہوں تو ان دونوں میں سے واجب تعالی کے لئے اس لفظ کو استعمال کریں۔ جو سب سے بہتر اور برتر ہو مثلا موجود اور معدوم قادر اور عاجز ، عالم اور جاہل جیسے مقابل المعنی الفاظ میں سے بہتر لفظ یعنی موجود اور قادر اور عالم کا لفظ استعمال کر میں اور یہ عقیدہ رکھیں کہ ہماری قدرت میں اس سے زیادہ تعریف اور توصیف ممکن نہیں۔ اس کی ذات اقدی۔ عقول اور اوہام کے تصور سے بالا اور برتر ہے اور جن چیزوں کا ہم تصور کر سکتے ہیں وہ ذات اقدس ان میں سے کسی کے مشابہ نہیں۔ "ليس كمثله شيء وهو السميع البصير اور چونکہ ہم آداب خداوندی سے واقف نہیں اس لئے ہم کو خدا کی شان میں وہی الفاظ استعمال کرنے چاہئیں جو شارع علیہ السلام نے ہم کو بتلائے ہیں۔
عقیده هشت دهم .....اللہ تعالی کے اسلام تو قیفی ہیں حق تعالی کے اسماء یعنی اس کے نام تو قیفی ہیں یعنی صاحہ بہ شریعت سے سننے پر موقوف میں، حادث تو اپنی ہی صفات کے سمجھنے سے قاصر ہے قدیم - ، اسماء اور صفات کو بغیر بتلاۓ
کیسے جان سکتا ہے؟ شرع میں حق تعالی کی ذات پر جس اسم کا اطلاق آیا ہے اس اسم کا اطلاق جائز ہے اور بھی اہم کا اطلاق نہیں آیا اس کا اطلاق نہیں کرنا چاہیے۔ اگر چہ اس اسم میں معنی کمال پائے جانے کی وجہ سے عقلا اس کا اطلاق درست ہو مثلا اللہ تعالی کو شافی کہہ سکتے ہیں مگر طبیب نہیں کہیں گے ۔ کیونکہ جواد اور شانی اور عالم کا اطلاق شرع میں آیا ہے گی اور طلبیب
اور عاقل کانہیں آیا۔
جانا چاہئے کہ یہ کلام ان اسماء میں ہے جو صفات اور افعال سے لئے گئے ہوں ورنہ اسماء اعلام اور اسما وذات میں کلام نہیں ہر زبان میں ذات الہی کے لئے کوئی لفظ موضوع ہے مگر جو نام کفار کی زبان میں مخصوص میں اللہ تعالی کو ان ناموں سے پکارنا نہ چاہئے کہ اس میں کفر کا اندیشہ ہے مگران کی بے تعظیمی بھی نہ چاہئے ۔ عقیدۂ توز دہم ... حق تعالی کی صفات نہ عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات
ہیں بلکہ لازم ذات ہیں اہل سنت والجماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ حق تعالی شانہ کی صفات نہ اس کی عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات ہیں بلکہ لازم ذات ہیں اس لئے کہ مفت موصوف کا مین نہیں ہوتی ۔ لہذا اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میرا معبود اور میرا خالق اور میرا رازق اللہ کی صفت علم یا صفت قدرت ہے اور میں اللہ کی اس صفت کی پرستش کرتا ہوں تو یہ باطل ہے ہاں اگر یہ کہے کہ میرا معبود ٹیم اور قدیر ہے جس کی صفت علم اور قدرت ہے تو یہ بیج اور درست ہے ۔
اور اسی طرح اگر کوئی دعاء میں یہ کہے یا حیات یا علم یا تکوین یا ترزیق‘ تو جائز نہیں معلوم ہوا کہ اللہ کی صفات اس کا میں نہیں لیکن غیر بھی نہیں کہ اس سے ہدا اور علیحدہ ہوسکیں کیونکہ غیریت کے معنی یہ ہیں کہ ایک غیر کے فنا اور عدم کی صورت میں دوسرے غیر کا وجود اور بقاء جائز ہو اور یہ معنی حق تعالی میں درست نہیں اس لئے کہ خدا تعالی اور اس کی صفات جدا جدا چیز میں نہیں معلوم ہوا کہ صفات کا ذات سے جدا ہونا ناممکن اور محال ہے جیسے چار کے لئے زوجیت اور پانچ کے لئے فردیت لازم ہے مگر اس کا عین نہیں چار کا مفہوم علیحدہ ہے اور زوجیت کا مفہوم علیحدہ ہے ۔ مگر زوجیت چار کی نفس ماہیت کے لئے ایسی لازم ہے کہ نہ ذہن میں اس سے جدا ہوسکتی ہے اور نہ خارج میں ، اسی طرح علم علیم کا مین تو نہیں مگر اس سے جدا اور علیحد ہ بھی نہیں ہوسکتا۔ قرآن حکیم میں حق تعالی نے علم اور قوت اور عزت کو اپنی طرف مضاف کیا ہے۔ انزله يعلمه ولا يحيطون بشيء من علبة إلا بمافاء" ت انزل يعلم الله ذو القوة المتين والله العزة جميعا ذو الفضل العظيم ذو الجلال والاکرام معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کا علم اور قدرت اور عزت اور حلال اس کا میں ذات میں اس لئے کہ کوئی شئے اپنی طرف مضاف نہیں ہوتی اور جس طرح صلحت اور موصوف میں تقریر کی ستی ہے اسی طرح بعض علما کا میقول ہے کہ اسم نہین سٹی ہے اور نہ غیرسٹی اس لئے کہ اگر ام میں سنی ہو تو سٹی کی طرح اہم کا معبود ہونا لازم آئے گا ۔ حالانکہ عبداللہ میں اللہ کی عیادت کا حکم ہے اسم کی عبادت کا حکم نہیں اور اگر اسم سمی ہوتو اللہ تعالی معبود ندر ہے گا ۔ اور حق یہ ہے کہ کتاب وسنت میں اسم کا اطلاق مختلف طور پر آیا ہے بھی اسم بول کر لفظ سر ہو لیا گیا ہے اور بھی ذات شئے جیسے زید ضارب زید مارنے والا ہے اور ہند طالق‘ اور بندہ پر طلاق ہے ایسی جگہ اسم سے مسمی مراد ہے اور اسم مسمی کا عین ہے اور جہاں اسم بول کر لفظ مراد لیا گیا ہے وہاں اسم سمی کا غیر ہے۔ حکماء اور معتزلہ کے نزدیک اللہ کی صفات میں ذات میں اور منتظمین کے نزدیک لازم ذات ہیں۔ عقیده بستم....الہ تعالی کی صفات قدیم اور غیرمخلوق میں جاننا چاہئے کہ اللہ تعالی کی تمام صفات قدیم ہیں ۔ اگر مخلوق نہ بھی پیدا ہوتی تو اس میں پیدا کرنے کی قدرت تو ضرور ہے اس وجہ سے خالق اس کا نام قدیم ہے۔ اس کا خالق ہونا حقوق کے پیدا ہونے پر موقوف نہیں بلکہ مخلوق کا پیدا ہوا اس کے خالق ہونے پر موقوف ہے اگر اس میں پیدا کرنے کی صفت نہ ہوتی تو یہ حقوق کیسے پیدا ہوتی ؟ عقیده بیست و یکم.....اللہ کی صفات میں ترتیب نہیں
نیاز یہ بھی جاننا چاہیے کہ اللہ تعالی کی صفات میں ترتیب نہیں یعنی یہ کہنا درست نہیں کہ اللہ تعالی کی فلاں صفت پہلے ہے اور فلاں صفت بعد میں ۔ اس کی تمام وفات قدیم اور ازلی میں ۔ یہ کہنا درست نہیں کہ اس کا علم اس کی قدرت سے پہلے ہے یا اس کی قدرت اس کے علم کے بعد ہے یا اس کی حیات اس کے علم سے پہلے ہے۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ سے حی اور علیم اور قدیر ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں