khatm e nabuwat notes in urdu
عقائد متعلقہ نبوت ورسالت
انبیاء کرام اللہ کے برگزیدہ اور معصوم بندے ہیں،اور نبوت و رسالت کی ضرورت
حضرت انبیاء کرام یہم الصلوۃ والسلام حق تعالی کے پاک اور برگزیدہ بندے ہیں جن کو اللہ تعالی نے خلق کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا ہے تا کہ خلق کو حق تعالی کی طرف بلائیں اور گمراہی سے سیدھے راستہ پر لائیں اور اللہ تعالی کی طرف سے بندوں کو دارالسلام کی طرف دعوت دیں جو اس کی رضا کا مقام ہے جو شخص اللہ تعالی کی دعوت قبول کرے اس کو جنت کی خوشخبری سنائیں اور جوشخص اس کی دعوت کے قبول کرنے سے انکار یا اعراض کرے اس کو دوزخ کی وعید سنائیں۔ وہ شخص بڑا ہی بد بخت ہے جس نے رب کریم کی دعوت کو قبول نہ کیا اور اس کی ہدایت کے دستر خواں پر بیٹھنے سے انکار کر دیا ان بزرگوں نے حق تعالی کی طرف سے جو کچھ پہنچایا اور بتلایا ہے وہ سب پیچ اور حق ہے۔اس پر ایمان لانا فرض ہے انبیاء کرام علیہم السلام کا مبعوث ہونا اہل جہاں کے لئے حق جل شانہ کی رحمت کبری اور نعمت عظمی ہے۔ اگر ان بزرگواروں کا واسطہ اور ذریعہ نہ ہوتا تو ہم گمراہوں کو اس واجب جل مجدہ کی ذات وصفات کی معرفت کی طرف کون ہدایت فرماتا ۔ اور ہمارے مولی جل شانہ کی مرضیات اور نا مرضیات سے کون آگا ہ کرتا۔
ہماری ناقص اور پیار عقلیں بغیر انبیاء کرام کی شمع ہدایت اور نور نبوت کے معزول اور پیکار ہیں۔ حق جل شانہ کی مرضیات اور نا مرضیات کے ادراک سے قاصر ہیں ہمارے فہم اور ادراک بغیر انبیاء کرام کی رہنمائی کے مخذول اور خوار میں آنکھ کی روشنی جب ہی کام دیتی ہے کہ جب باہر سے آفتاب اور ماہتاب کی بھی روشنی اس کی رہنمائی کرے اسی طرح عقل کی روشنی بغیر آفتاب نبوت کی روشنی کے بیکار ہے ۔
عقل (بشرطیکہ سلیم ہو یعنی تندرست ہو پیار نہ ہو بینا ہواندگی نہ ہوسیح سالم ہواولی اور انگلی نہ ہو ) حجت ہے لیکن جیت میں ناقص اور تمام ہے مرتبہ بلوغ تک نہیں پہنچی حجت بالغہ انبیاء کرام کی بعثت سرما یا ہدایت ہے جس پر آخرت کے دائی عذاب اور ثواب کا دار و مدار ہے اور جس سے بندوں پر حجت تمام ہوئی اور کسی کے لئے عذر کا کوئی موقعہ نہیں رہا نیز لوگوں کی عقلیں مختلف اور متفاوت ہیں ایک کے ادراکات دوسرے کے ادراکات سے نہیں ملتے بڑے بڑے عقلا ء ایک بات میں مختلف الرائے ہیں ۔اس لئے حق تعالی نے انبیا ء کومبعوث فرمایا تا کہ سب ایک طریق پر متفق ہو جائیں اگر انبیاء مبعوث نہ ہوتے تو اختلاف آراء کی وجہ سے عجیب کش مکش پیش آتی کوئی کسی طریقہ سے عبادت کرتا اور کوئی کسی طریقہ سے کرتا۔ اور ہر ایک اپنے طریق کو اچھا اور بہتر بتا تا۔ نیک و بد میں امتیاز باقی نہ رہتا۔ ہر کافر اپنے کفر کو ایمان اور ہدایت بتا تا اور ہر بد کار اور ظالم اپنی بدکاری اور ستم رانی کو عدل اور انصاف بتا تا جیسے آج کل کے شہوت پرست اور نفس کے بندے اپنی نفسانی شہوات کو جذبات فطرت بتلاتے ہیں اور رشوت خوار رشوت کو اپنا حق الخدمت بتلاتے ہیں۔
اس لئے حق تعالی نے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا تا کہ دینی اور دنیوی امور میں لوگوں کو خدا کے احکام اور ہدایات سے آگاہ کر میں حق تعالی شانہ جب بندوں کا خالق اور منعم ہے تو عقلا بندوں پر اس کا شکر واجب ہے مگر چونکہ بندے کیفیت اداۓ شکر سے واقف نہ تھے اس لئے پیغمبروں کے ذریعہ اس کیفیت سے مطلع فرمایا۔ حق تعالی کی لاکھوں اور کروڑوں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں حضرات انبیاء کرام پر جن کے ذریعہ حق اور باطل نیک اور بد کا فرق معلوم ہوا۔ اور عقل کے مقتضیات اور نفس کے شہوات کا فرق واضح ہوا۔
حضرات انبیاء کرام متواتر طور پر مخلوقات کو خدا کی طرف دعوت دیتے رہے اور اس کے وجود اور اس کی صفات کمال کو دلائل اور براہین سے سمجھاتے رہے۔ یہاں تک کہ ان بزرگواروں کا بول بالا ہوا اور لوگوں پر اپنی جہالت منکشف ہوئی اور وجود صانع کے قائل ہوۓ اور اشیاء کوحق کی طرف منسوب کرنے لگے۔ مخلوق کو خالق کی معرفت کی دولت حضرات انبیاء کرام کے دستر خوان سے ملی اور حشر ونشر اور جنت اور جہنم اور دائی ثواب اور عذاب جن کے ادراک سے عقل قاصر ہے ان چیزوں کا علم حضرات انبیاء کی شریعت سے ہوا جس طرح طور عقل ،طور حس سے بالا اور برتر ہے کہ جو چیز حس ظاہر سے مدرک نہ ہو سکے عقل اس کا ادراک کر سکتی ہے۔ اس طرح طور نبوت بھی طور عقل سے کہیں بالاتر اور برتر ہے کہ جو چیز عقل سے مدرک نہ ہو سکے وہ نبوت کے ذریعہ ادراک میں آسکتی ہے اور بذریعہ وحی کے معلوم ہوسکتی ہے اولیاء کرام کا الہام انوار نبوت سے مقتبس ہے اور انبیاء کرام کی متابعت کی برکت کا نتیجہ اور ثمرہ ہے اگر عالم غیب کی چیزوں کے معلوم کرنے کے لئے عقل کافی ہوتی تو فلاسفہ جنہوں نے عقل کو اپنا مقتدی بنایا ہے حق تعالی کی معرفت میں گمراہ نہ ہوتے بلکہ سب سے زیادہ حق تعالی کے پہچاننے والے ہوتے ۔ حالانکہ خدا کی ذات وصفات کے بارے میں فلاسفہ تمام لوگوں سے زیادہ جاہل ہیں ۔ خدا کو بے کار اور معطل سمجھتے ہیں اور سواۓ ایک شے (عقل اول) کے صدور کے قائل نہیں اور وہ بھی اختیار کے ساتھ نہیں بلکہ ایجاب اور اضطرار کے ساتھ۔ و كبرت كلمة تخرج من أفواههم إن يقولون إلا كذبا )
(سورہ کہف: آیت ۵، پاره ۱۵) ” بڑی بھاری بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے اور وہ لوگ بالکل ہی جھوٹ بکتے
ہیں۔“ امام غزالی، "المنقذ من الضلال“ میں لکھتے ہیں کہ اہل فلسفہ نے علم طب اور علوم نجوم گزشتہ پیغمبروں کے صحیفوں اور کتابوں سے چرایا ہے ۔ عقل دواؤں کے خواص اور آثار کے سمجھنے سے قاصر ہے اور علم تہذیب اخلاق کو فلاسفہ نے صوفیہ کرام کی کتابوں سے جو ہر زمانہ میں کسی نہ سی پیغمبر کی امت رہے ہیں چرایا ہے ۔ علم منطق جوان کا مایہ نا علم ہے اور غلط اور صیح فکر میں تمیز کرنے کا آلہ ہے اور خطاء فی الفکر سے عصمت اور حفاظت کا ذریعہ ہے ۔ خدا کی معرفت میں خصوصا اور دیگر علوم میں عموماً وہ آگہ عاصمہ ان کے کچھ کام نہ آیا اور خبط میں پھنس کر گمراہی کے جنگل میں بھٹکتے رہے جب یہ قانون عاسم انہیں کو خطاء سے محفوظ نہ رکھ سکا تو اوروں کو کس طرح خطاء سے بچائے گا؟ دوسرے کے لئے عاصم وہی ہو سکتا ہے جو خود بھی معصوم ہو اور معصوم نبی کی ذات اور اس کی وحی ہے اگر ان حضرات کا وجود باجود نہ ہوتا تو انسانی عقلیں اللہ تعالی کی معرفت اور اشیاء کے حسن و قبح اور خیر وشر کے ادراک سے عاجز اور قاصر رہتیں۔ فلاسفہ حقد مین کو لے لیجئے جن کی عقل و دانش کا شہرہ تھا۔ بہت سے ان میں سے حق جل شانہ کے منکر تھے اور حوادث عالم کو دہر یعنی زمانہ کی طرف منسوب کر تے تھے ۔ نمرود روۓ زمین کا بادشاہ گزرا ہے جس کا تمدن مشہور ہے ۔ وہ بھی خدا تعالی کا منکر تھا ۔ حضرت ابراہیم ما کے ساتھ اس کا مجادلہ مشہور ہے ۔ علی ہذا فرعون جو مصر کا بادشاہ تھا وہ بد بخت ہی کہا کرتا تھا: "ما علمت لكم من إله غيري. میں تمہارے لئے اپنے سوا کسی کو معبود نہیں جانتا۔“
اور جب موسی ﷺ نے خدا کی طرف دعوت دی اور خدا کے وجود کے دلائل اور براہین بیان کئے تو اس نے موسی میم کو مخاطب کر کے یہ کہا: و لين اتخذت إلها غيري لا جعلتك من المسجونين ) (سورہ شعراء : آیت ۲۹، پار۱۹۰)
اے موی اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھ کو قید میں ڈال دوں گا ۔“
اور اس بد بخت فرعون نے اپنے وزیر ہامان کو کہا: وياهامان ابن لي صرحا لعلى ابلغ الأسباب 0 أسباب الشموت فاطلع إلى إله موسى وإني لاظنه كاذبا » (سورۂ مومن : آیت ۳۶، ۳۷، پار۲۴۰) امے ہامان میرے لئے ایک بہت بڑا اونچا مکان بنا تا کہ میں آسمانوں پر چڑھ کر موی کے خدا کی خبر لوں میرا گمان ہے کہ موسی جھوٹا ہے۔“ اور آج کل امریکہ اور برطانیہ کو لے لیجئے جن کے تمدن پر دنیا پر دانوں کی طرح گر رہی ہے۔ ان کی عقل کا نمونہ دیکھ لیجئے۔ ایک میں تین اور تین میں ایک ہونے کے قائل ہیں۔ حضرت عیسی کو باوجود بشری حاجتوں کے خدا مانے ہوۓ ہیں اور خدا ماننے کے بعد ان کے منقول اور مصلوب ہونے کے بھی قائل میں معاذ اللہ کیا خدا بھی پھانسی چڑھ سکتا ہے؟ اس لئے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب ﷺ یہ فرمایا کرتے تھے کہ انگریز عاقل نہیں کاریگر ہے عقل اور چیز ہے کاریگری اور چیز ہے، مسلمان فرمانبردار اگر عیش وعشرت میں نہ پڑتے اور صنعت و حرفت کی طرف توجہ مبذول کرتے تو انگریزوں سے کم ندار ہے ، جس طرح اطباء بلدان انسانی کا علاج کرتے ہیں اسی طرح حضرات انبیاء مخلوق کے روحانی طبیب ہیں اور نفس انسانی کا معالجہ فرماتے ہیں۔ اور جس طرح معالہ میں بعض پیاروں کو جبر و تشدد کی ضرورت بلکہ زد و کوب کی نوبت آجاتی ہے اور مار کر اس کو دوا پائی جاتی ہے اب مریض کو نہایت مفید دوا دینا چاہتا ہے گر مریض اس دوا کی منفعت کو نہیں سمجھتا اور اس کے پینے میں تامل کرتا ہے اور اپنی بد پرہیزی کی عجیب عجیب تاویلیں کرتا ہے تو اطباء کا طریق یہ ہے کہ وہ مریض کو مرغوب اشیاء سے پر ہیز کرنے کے اسباب اور دواء کے فوائد سمجھانے کی طرف توجہ نہیں کرتے اس میں مشقت اور تب بہت ہے اور فائدہ بہت کم ۔ بلکہ یتی اور زبردستی دوا پلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اسی طرح اطباء روحانی یعنی انبیاء کرام ، روحانی مریضوں کو افعال شیعہ سے پر ہیز کا حکم دیتے ہیں تا کہ لنکس کو صحت کلی حاصل ہو جائے ۔ مگر کج فہم اور بد بخت دنیاوی لذتوں اور نفسانی شہوتوں سے پر ہیز میں گرانی محسوس کرتے ہیں ۔ اس لئے حضرات انبیاء کرام جب ان نفسانی مریضوں کے لئے کوئی دوا اور غذا اور پر ہیز تجویز کرتے ہیں تو سیلوگ اس کے اسباب وعلل اور فوائد ومنافع پر بحث شروع کر دیتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشوں کے لئے عجیب تاویلیں تراشتے ہیں اور اصل بیماری در روگ یہ ہے کہ حکم خداوندی کو پابندی اور پر شاق اور گراں ہیں ۔ آسانی اور آسائش اس میں سمجھتے ہیں کہ حیوانات کی طرح آزادر میں حلال وحرام کی تقسیم نہ ہو جس کھیت میں جی چاہا منہ ماردیا اور جس مادہ سے جی چاہا اس سے اپنی حاجت پوری کر لی ، آزادی سے انسان، انسان نہیں رہتا بلکہ حیوان بن جاتا ہے ۔ حضرات انبیاء کرام کی اطاعت سے انسان حقیقی انسان بنتا ہے۔ مقام بی تو ممکن ہے کہ انسان کسی قانون اور ضابطہ کا پابند نہ ہو۔ اس عقیدہ کا انسان کسی حکومت میں زندگی بسر نہیں کر سکتا ہیں افسوس ہے ان کم عقلوں پر کہ جو اپنے ووٹ سے بناۓ ہوۓ ممبروں کے قانون کی پابندی کو تو تہذیب اور تمدن سجھتے ہیں اور خداوند ذوالجلال کے اتارے ہوۓ احکام سے ناک اور منہ چڑھاتے ہیں۔ "اللهم اهدقومي فإنهم لايعلمون"
لفظ نیوت اور رسالت کا مفہوم اور نبی اور رسول میں فرق نبوت مصدر ہے جہا سے مشتق ہے جس کے معنی عظیم الشان خبر کے ہیں اور یہاں اس سے دو خاص خبر مراد ہے جس کو خدا تعالی اپنی طرف سے کسی اپنے خاص برگزیدہ بندہ پر نازل فرمائے تا کہ بندوں کو اس سے واقف اور با خبر کر دے لہذا نبوت کے معنی ان چیزوں اور خبروں کے پہنچانے کے ہوں گے جوان تعالی کی طرف سے اس برگزیدہ شخص کو پہنچی ہیں اور اس برگزیدہ شخص کو کہ جو خدا کی دی ہوئی خبروں کو بندوں تک پہنچاۓ نبی کہتے ہیں ، اور بعض علماء کہتے ہیں کہ نبوت کے معنی ارتفاع اور بلندی کے ہیں چونکہ نبی کومن جانب اللہ ایسے بلند علوم اور معارف عطا ہوتے ہیں کہ جہاں تک بڑے سے بڑے عقلاء کی عقلیں نہ پہنچ سکیں اور اس کو ایسا بلند منصب اور عالی مرتبہ اور مقام عطا فرماتے ہیں کہ جو اوروں کو نہیں عطا کر تے ۔اس لئے اس کو ہی کہتے ہیں۔
اور رسول رسالت سے مشتق ہے۔ رسالت کے معنی خدا تعالی اور ذی عقل مخلوق کے در میان سفارت کے ہیں اور اللہ تعالی اور بندوں کے درمیان جو سفیر ہو اس کو رسول کہتے ہیں۔ رہا یہ امر کہ نبی اور رسول میں کیا فرق ہے۔سو بعض علماء کے نزدیک تو نبی اور رسول ایک ہیں لیکن صحیح یہ ہے کہ رسول کا مرتبہ نبی سے بڑھ کر ہے اس لئے کہ احادیث میں انبیاء کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زائد آئی ہے اور رسولوں کی تعداد تین سو تیرہ آئی ہے معلوم ہوا کہ رسول خاص ہے اور نبی عام ہے۔ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی کا رسول ہونا ضروری نہیں ۔اس لئے محققین نے نبی اور رسول میں میں فرق کیا ہے کہ نبی وہ برگزیدہ بندہ ہے کہ جس پر اللہ کی وحی آتی ہو اور وہ ہدایت خلق اور تبلیغ احکام الہیہ پر مامور ہو خواہ صاحب کتاب ہو یا نہ ہو اور انبیاء کرام میں سے جس کومن جانب اللہ کوئی خصوصی امتیاز حاصل ہو مثلا اس کو کوئی نئی کتاب یا کوئی نئی شریعت دی گئی ہو یا منکرین اور مکذبین کے مقابلہ کا اس کو حکم دیا گیا ہو یا کسی نئی امت کی طرف اس کو مبعوث کیا گیا ہو تو اس کو رسول کہتے ہیں غرض یہ کہ رسول کے لئے بیضروری نہیں کہ اس پر کوئی نی کتاب یا نئی شریعت نازل ہوئی ہو اس لئے کہ حضرت اسمعیل یا بالاتفاق رسول تھے لیکن ان پر کوئی کتاب اور شریعت نازل نہیں ہوئی نیز ایک حدیث سے ظاہر ہے کہ رسولوں کی تعداد تین سو تیرہ ہے اور کتابوں کی تعداد ایک سو چار ہے معلوم ہوا کہ رسول کے لئے جدید شریعت کا ہونا ضروری نہیں۔
حافظ ابن تیمیہ ﷺ نے نبی اور رسول میں جو فرق بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی وہ ہے کہ جواللہ کی طرف غیب کی خبر میں بیان کرتا ہو اور اس پر اللہ کی وحی آتی ہو ۔ اور اگر ان اوصاف کے ساتھ وہ کفار ناہنجار اور نافرمان قوم کی تبلیغ پر بھی مامور ہو تو وہ رسول بھی کہلائے گا۔ تفصیل کیلئے کتاب الدعوات صفحہ۱۷۲ تا۱۷۴ ملا حظہ فرمائیں۔ عقیده دوم... نبوت و رسالت عطیہ خداوندی ہے،
کوئی اکتسابی شئے نہیں
نبوت و رسالت محض موہبت خداوندی اور عطیہ الہی ہے وہ جس کو چاہتا ہے خلعت
نبوت سے سرفراز فرماتا ہے۔ و يختص برحمته من يشاء » (سوره آل عمران: آیت۷۴، پار۳۰) خاص کر دیتے ہیں اپنی رحمت فضل کے ساتھ جس کو چا ہیں ۔" و الله يصطفى من المليكة رسلا و من الناس ) (سورہ بج : آیت ۷۵، پارہ ۱۷)
”اللہ تعالی ( کو اختیار ہے رسالت کے لئے جس کو چاہتا ہے ) منتخب کر لیتا ہے فرشتوں میں سے (جن فرشتوں کو چاہے ) احکام پہنچانے والے اور (اس طرح آدمیوں میں سے)۔“
نبوت کوئی اکتسابی شے نہیں جو مجاہدہ اور ریاضت سے حاصل ہو یا کسی خاص قابلیت اور
استعداد حاصل ہو جانے سے نبی ہو جا تا ہو نبوت حق جل شانہ کی خلافت اور نیابت ہے اور خدا
اور بندوں کے درمیان سفارت ہے جب تک بادشاہ کسی کو اپنا نائب اور سفیر نہ بناۓ اس وقت
تیک کوئی شخص محض اپنی قابلیت سے سفیر نہیں بن سکتا۔
فلاسفہ اول تو نبوت کے قائل نہیں اور اگر کوئی ان میں سے قائل ہوا ہے تو اس نے نبوت کو اکتسابی سمجھا ہے اور یہ گمان کیا کہ جب نفس انسانی مجاہدہ اور ریاضت کر کے مادی علائق سے تجرد حاصل کرے اور صفا نفس سے امور غیبیہ اس پر منکشف ہونے لگیں اور عصریات میں تدبیر اور تصرف کر سکے تو وہ نبی ہو جا تا ہے ۔ شرعی نقطہ نظر سے یہ کفر اور گمراہی ہے۔
عقیدہ سوم ---- تمام انبیاء پر ایمان لانا فرض ہے اور ان پر تفریق کفر ہے تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام پر ایمان لانا ضروری ہے ایک نبی پر ایمان نہ لانا تمام انبیاء پر ایمان نہ لانے کے ہم معنی ہے کیونکہ کلہ تمام انبیاء کا متفق ہے اور اصول دین سب کے ایک
كذبت قوم نوح بالمرسلين » (سور وشعراء : آیت ۱۰۵، پار۱۹۰) قوم عاد نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ و كذبت ثمود بالمرسلين » (سور وشعراء: آیت ۱۳۱، پار۱۹۰) قوم ثمود نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔
قوم نوح نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ و كذبت عاد والمرسلين » (سوره شعرا: آیت۱۲۳، پارہ ۱۹)
قوم نوح اور قوم عاد اور قوم ثمود نے فقط اپنے اپنے زمانہ کے رسول کی تکذیب کی تھی مگر اللہ تعالی نے ان آیات میں ایک رسول کی تکذیب کو تمام رسولوں کی تکذیب قرار دیا اور میفرمایا کہ قوم نوح نے تمام پیغمبروں کی تکذیب کی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں