DAJJAL_KAUN_KAB_KAHAN_VOL_1_2_3.pd
Al-Masih ad-Dajjal
mufti abulbaba shah mansoor
دجال یافتنہ دجال
دجال 1‘‘ کی اشاعت کے بعد جہاں بھی جا تا ہوا احباب دوہی سوال پوچھتے تھے: پہلا سوال ہوتا تھا :'' آپ دجال ( نامی کتاب ) والے مفتی ہیں؟ احقران سے عرض کرتا نہیں ! میں حضرت مہدی والا مفتی ہوں ۔“ دوسرا سوال کیا جا تا تھا : 2012 ء میں کیا ہونے والا ہے؟“ راقم عرض کرتا '' آج 12 بجے کیا ہونے والا ہے؟ مجھے یا کسی بھی انسان کو اس کا علم نہیں ، تو 2012 ء کے متعلق کسی کو کیا علم ہوسکتا ہے؟
کچھ بے تکلف شناسا چھوٹتے ہی پوچھتے ہیں :’ دجال کب آنے والا ہے؟ راقم کا جواب ہوتا ہے :'' حدیث شریف میں آتا ہے ۔ جنگ کی تمنا نہ کرو لیکن اگر سابقہ پڑ جاۓ تو پیٹھ نہ دکھاؤ۔ لہذا ہمیں دجال کے بارے میں ایک حد سے زیادہ تجسس نہیں کرنا چاہیے۔ خدا جانے ہمارا اس وقت کیا حال ہوگا جب وہ ہمارے ایمانوں کو آزمائش میں ڈالے گا ۔البتہ فتنہ دجال کے آثار ظاہر ہونے ، پھلنے پھولنے اور دن بہ دن بڑھتے چلے جانے سے کسی کو انکارنہیں، عرب و عجم کے علمائے کرام اور شرق وغرب کے مفکرین و دانش ور دنیا کو جس طرح سے مادیت پرستی اور خدا بیزاری میں مبتلا دیکھ رہے ہیں ، جس طرح سے انسان مذہب کے بجاۓ سسٹم ، فطرت کے بجاۓ مصنوعی بین اور اعلی اخلاقیات کے بجاۓ نفسانی خواہشات کی جکڑ بندی میں پھنستا چلا جارہا ہے، اس کو وہ’ دجالی تہذیب‘’ دجالی نظام‘ اور’دجالی مذہب کے علاوہ اور کوئی نام دینے سے قاصر ہیں۔ انہی الفاظ کو دوسری تعبیر میں فتنہ دجال‘ کہا جا تا ہے ۔ لہذا ہمیں دجال کے بارے میں بجس میں پڑنے سے زیادہ دجالی نظام کے خلاف کام کر نے پر زور دینا چاہیے ۔ کیسے؟ آیئے اسکو سمجھتے ہیں ۔ مغرب میں شیطان کے پجاریوں اور دجال کے چیلوں کا باہمی اکھ ہے ۔اس پر ہی عاجز دجال 3 میں تفصیل سے برادران اسلام کو آگاہی دے گا۔ انشاءاللہ ۔ شیطان کے ایک چیلے نے ( جس کا نام اور دیگر تفصیلات بھی انشاءاللہ یہ عاجز بتاۓ گا ) ایک انٹرویو میں کھلے عام بتایا کہ شیطان اور اس کی جماعت کے تین بڑے عزائم ہیں: (1) انسانیت کے ذہن میں رحمان ( جل جلالہ ) اور شیطان دونوں کا تصور ختم کرنا۔(2) آسمانی مذاہب (اسلام اور عیسائیت مراد ہے نہ کہ یہودیت) کا خاتمہ۔(3) انسانیت کے ذہن پر کنٹرول حاصل کر کے اسے شیطانیت اور نفسانیت پرلگانا۔ یہ ہے فتنہ دجال کا تین نکاتی پروگرام ۔ اب اگر کوئی اللہ ورسول سے محبت کرتا اور ان کے لیے غیرت کھا تا ہے تو اسے فرضی بحثوں میں الجھنے کے بجاۓ ، غیر متعلقہ مسائل چھیڑ نے کے بجاۓ ، ان تین نکات کے خلاف مثبت انداز میں کام کرنا چاہیے۔اسے فتنہ دجال کے خلاف درج ذیل تین کاموں میں سے کوئی نہ کوئی کام شروع کرنا اور آ گے بڑھنا چاہیے: ( 1 ) لوگوں کو رحمان کے رحمت کا امیدوار بناۓ اور شیطان اور اس کی پیروی کی لعنت سے چھٹڑاۓ۔ (2) واحد اور بچے آسانی مذہب کی تبلیغ میں کسی نہ کسی شکل میں حصہ ڈالے ۔ یعنی شریعت وسنت کو خود بھی اپناۓ اور دنیا میں بھی ان کی ترویج وتنفیذ کے لیے مقدور بھر جد و جہد کرے ۔ (3) انسانی ذہنوں کو شیطان اور نفس کی غلامی سے چھڑا کر اللہ ورسول کی اطاعت کی طرف لاۓ ۔ ان تینوں اغراض کے لیے جو بھی اہل حق دنیا میں جہاں بھی کوششیں کررہے ہیں، ان کے مثبت کاموں میں ہاتھ بٹاۓ ، یا کم از کم ان کی ہاں میں ہاں ملاۓ ۔ ان سے تعاون نہ کر سکے تو ان پر غیر تعمیری تنقید سے گریز کرے۔ مسلم امہ کے افراد، اداروں اور جماعتوں میں اتنا اتحاد بھی ہو جاۓ تو بڑی غنیمت کی بات ہے۔میں بڑی سعادت اور مسرت کی بات ہے کہ زیر نظر اشاعت احادیث کی تخریج کے ساتھ مزین ہو کے قارئین کے سامنے پیش ہورہی ہے۔ اس سے کتاب کی استناد وتوثین اور افادیت وقبولیت میں انشاءاللہ اضافہ ہوگا۔ یہ عاجز ان قارئین کے لیے بھی جنہوں نے یہ مشورہ دیا یا تقاضا کیا، اور ان عزیز ساتھیوں کے لیے بھی جنہوں نے اس کام کے لیے تعاون کیا، دل سے دعا گو ہے کہ اللہ تعالی انہیں اپنی چھی محبت اور عاشقانہ معرفت نصیب فرماۓ اور دنیا و آخرت میں شایان شان اجر عطافرمائے ۔آمین
ادارہ’السعید نے اس کتاب کو بندہ کی خواہش کے مطابق کم قیمت اور اچھے معیار پر قارئین کو فراہم کرنے کی جو کوشش کی ہے ۔ اس پر وہ میرے اور سب قارئین کی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں، امید ہے وہ اپنی یہ پہچان قائم رکھیں گے۔ کتاب کی قیمت کم رکھنے میں انہیں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اس پر ہم سب ان کے لیے حسن اخلاق اور حسن قبولیت کی دعا کرتے ہیں ۔اللہ تعالی ہم سب کو سلامتی و عافیت کے ساتھ دین کی خدمت کے لیے قبول فرماۓ ۔آمین
رحمت الہی کی جستجو
حکایات و شکایات :
یہ کتاب کس طرح وجود میں آئی ؟ کس مقصد کے لیے لکھی گئی ؟ اس کے مضامین کے ماخذ کیا ہیں اور اسے کن حضرات کی تحقیقات کی مدد سے ترتیب دیا گیا ہے؟ اس کا عصر حاضر سے کیا تعلق ہے؟ مستقبل قریب کے حوالے سے یہ کیا رہنمائی کرسکتی ہے؟ ان حکایا ت کی تفصیل اور ان سب سوالات کا جواب کتاب سے اور اس کے آخر میں دی گئی فہرست کب سے ملتا ہے۔ زیر نظر مقد مے میں وہ چند باتیں عرض کرنی ہیں جو پہلی اشاعت کے بعد سامنے آ ئیں ۔ سب سے پہلے تو یہ ہوا کہ پہلا ایڈیشن چھپتے ہی تقریبا تین ہفتے میں ختم ہو گیا۔ یہ 1100 کانہیں،3300 کا ایڈیشن تھا۔ معاصر پاکستانی روایات اور تاریخ کے مطابق اسے ایک ریکارڈ قرار دیا گیا اور دوسرے ایڈیشن کی طلب اس وقت سے سامنے آنے لگی جب پہلا ایڈیشن چاپ کر دم بھی نہ لیا تھا....... سب ان قارئین کی نیک تمناؤں اور پر خلوص دعاؤں کا نتیجہ ہے جو غائبانہ طور پر بارگاہ رب العزت میں التجا کرتے ہیں کہ دعوت کا ریمل مؤثر و مفید ہواور خلق خدا کے لیے اصلاح و ہدایت کا ذریعہ ثابت ہو ۔دوسرا ایڈیشن 2200 کی تعداد میں چھپنے کے لیے دیا گیا۔ کتاب کی صحیح کا وقت تھا نہ نظر ثانی کی مہلت ۔ دوسرا ایڈیشن جس دن آیا اسی دن .... یا اس سے اگلے دن ... ختم ہو گیا۔ کتاب کی رسداتی میتھی جتنی اس کی طلب مسلسل سامنے آرہی تھی اور ناشرین کے لیے قارئین کی مانگ پوری کرنا مشکل ہوتا جار ہا تھا لیکن ساتھ ہی کچھ شکایات بھی سامنے آئیں۔ کتاب مہنگی ہے اور آسانی سے دستیاب نہیں۔ پہلی شکایت قارئین سے زیادہ ہمارے لیے پریشانی اور عامر کا باعث تھی اور دوسری بدانتظامی اور نا تجربہ کاری کی ایسی علامت تھی جس کا ازالہ ضروری تھا۔ واقعہ یہ سے بند و کی کتا ہیں دھوتی مقاصد کے لیے شائع کی گئی تھیں، ان کو دیگر کتب کی بنسبت سستی اور آسان فراہمی کے مربوط نظام کے تحت دستیاب ہونا چاہیے تھا....لہذا بندہ نے اس کا از خود جائزہ لیا کہ اشاعت اور ترسیل کے نظام میں خلل کہاں ہے؟ اور پھر اس کی فوری اصلاح کے لیے جو بن پڑا، کیا۔ قارئین سے درخواست ہے کہ آیندہ بھی اپنے خیرخواہانہ مشوروں اور مصلحانہ شکایتوں کے لیے کتاب کے شروع میں دیے گئے نمبر پر اطلاع دیتے رہیں، تا کہ دعوت الی الخیر کا میشن مشاورت اور اجتماعیت کے ساتھ جاری رہے اور ہم سب کی نجات اور مغفرت کا ذریعہ بنے ۔
تصحیح تسهیل:
اسرائیل کی تباہی کے آغاز کے حوالے سے جو2012ء کی تاریخ پیش کی گئی تھی ۔ اس ایڈیشن میں اس کے حوالے سے کچھ وضاحت کر دی گئی ہے ۔ یہاں اس کا خلاصہ درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بندہ کی تحقیق نہیں ،سعودی عالم ڈاکٹر سفر بن عبدالرحمن الحوالی کی تحقیق ہے۔ دوسرے یہ کہ اس طرح کی پیش گوئیوں کا وہی ہے مقصد لیا جانا چاہیے جو قرآن کریم میں قیامت کو قریب بتانے کا لیا جا تا ہے اور جس مقصد کے تحت حضور علیہ الصلوۃ والسلام دجال کے حوالے سے اس انداز میں خطبہ ارشادفرماتے تھے کہ صحابہ کرام رضی اللہعنہم کو یوں لگتا کہ دجال درختوں کے قریبی جھنڈ میں موجود ہوگا۔ اور یہ مقصد اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ انسان اپنے ایمان کی حفاظت فتنوں سے بچنے اور ان کے مقابلے کیلئے ہمہ وقت تیار اور چوکنا رہے ۔ اس سے اس کے ایمان وعمل پر مثبت اثرات پڑتے ہیں ۔ ایمانی جذ بات میں ترقی ہوتی ہے اور انسان خود کواللہ تعالی سے قریب کرنے اور شیطانی فتنوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت کر پاتا ہے ۔2012ء ہو یا کوئی اور سال، انسانی زندگی کے ماہ وسال بس اسی ترتیب سے گزرنے چاہئیں ۔اس کے علاوہ کوئی اور مطلب لینا اپنے ساتھ بھی اور ان تحقیقات کے ساتھ بھی ظلم ہوگا ۔ آپ کے ہاتھ میں موجود تیسرے ایڈیشن میں اضافات کم ہوۓ ہیں ۔ اس موضوع کے حوالے سے اہم اضافات دجال کی عالمی ریاست" نامی کی کتاب میں ان شاء اللہ آئیں گے (اب سے کتاب دجال 2 '' کے نام سے کیچپ رہی ہے البتہ تیج پرتوجہ دی گئی ہے ۔ نیز حتی الامکان مشکل الفاظ کی جگہ آسان الفاظ لکھے گئے ہیں ۔ بندہ ان لوگوں کے لیے دعا گو ہے اور ہمیشہ رہے گا جنہوں نے اغلاط اور ثقیل الفاظ کی طرف توجہ دلائی۔ واضح رہے کہ جو احادیث بندہ نے حضرت مولا نا محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی کتاب ”علامات قیامت سے لی میں ان کے حوالے نہیں دیے۔ ان احادیث کے حوالے اس کتاب میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ اس کتاب کی تیاری سے لے کر اشاعت تک ہر چیز میں اللہ تعالی کی خصوصی مدداور قارئین کی دعاؤں کی برکت شامل حال رہی ہے ۔ یہ کتاب تقریبا دوڈھائی ماہ کے عرصے میں لکھی گئی ۔ کچھ ابواب تو ایک ہی نشست میں تحریر ہوۓ ۔ آمد کا یہ حال تھا کہ سبحان اللہ! کاغذ کم پڑ جاتے تھے۔ ابھی اخبار میں مضامین قسط وار چپ رہے تھے کہ کتاب پر یس جا چکی تھی ۔ پھر جیسے ہی چھپی تو بعض ناقدین کے مطابق ” بیسٹ سیلر ثابت ہوئی ۔آگے کا حال خدا کو معلوم ہے لیکن اب تک یہ فروخت کے کئی ریکارڈ توڑ چکی ہے۔ بہت سے احباب نے کئی کئی سو نسخے خرید کر فی سبیل اللہ تقسیم کیے ۔ ان کے مطابق یہ نظر یہ سازی میں مفید اور قمر فکر ونظر میں اکسیر ہے۔ ایسے حضرات کے لیے کتاب کا پیپر بیک ایڈیشن بھی شائع کیا جاۓ گا۔ان شاءاللہ تعالی!
اول و آخر :
اس کتاب کی تصنیف کا اول و آخر مقصد ”تذکیر تھا۔ یعنی اپنے مسلمان بھائیوں کو رجوع الی اللہ کی دعوت اور اس فتنے کا مقابلہ کرنے کی ترغیب جو’ تاریکی کے دیوتا کی سر براہی میں بچے اور مہربان خدا کے خلاف اور شیطان مردود کی حمایت میں بر پا کیا جاۓ گا۔ انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ غیر معتدل مزاج ،نفسیاتی مریض ، ذہنی ابنارمل اور احساس برتری کی ماری ہوئی قوم یہود نے انسانیت کو خدا کے راستے سے ورغلانے اور شیطان کے غیر انسانی راستے پر چلانے کے لیے بڑے منظم طریقے سے اور بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ جوکوششیں کی ہیں ، اس تحقیقی کام کا مقصد ان ابلیسی کوششوں کو بے نقاب کرنا تھا۔ ان کوششوں کا مقصد یہ تھا کہ بچے بیچ ( جناب سید ناعیسی بن مریم علیہ السلام ) کے دشمن جھوٹے مسیح (الدجال الاکبر کا راستہ ہموار کیا جاۓ اور وہ موزوں حالات مہیا کر دیے جائیں جن میں اسیح الکذاب، الدجال الأعظم ، الملعون الاکبر کا خروج ممکن ہو سکے۔ اور ان کوششوں کو بے نقاب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کتاب کو جو مسلم ...... یا غیر مسلم ..... پڑھے، وہ آنے والے وقت کی سنگینی سمجھ سکے۔ وہ شیطان کے دربانوں کے متقابلے میں رحمانی لشکر کا مجاہد بن سکے ۔اس وقت سے پہلے جب ہم کچھ کرنے کے قابل نہ رہیں گے ، جب ہمیں نیو ورلڈ آرڈر ( دجال کے عالمی شیطانی نظام میں جکڑ لیا جاۓ گا، ہمیں بیدار ہو جانا چاہیے ۔اب بھی وقت ہے۔ ہمیں بیدار ہو جانا چاہیے۔اس سے پہلے کہ ہمیں نیند کے دوران ہمیشہ کی نیند سلادیا جائے ،ہمیں بیدار ہو جانا چاہیے۔ دشمن ہمیں دین اسلام سے دور کرنا چاہتا ہے، ہمیں ہر قیمت پر دین کی تعلیمات سے چمٹ جانا چاہیے اور دشمن کا پھینکا ہوا گولا اسی کی طرف واپس پھینک کر اپنے ان بھائیوں کو بھی جو دین سے دور ہو چکے ہیں، ایسا مسلمان بنانے کی کوشش کرنی چاہیے جس کے ہر کام پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ جس کا ہر قدم دجال کے ساۓ سے بچتے ہوۓ اللہ کی رحمت کی تلاش میں اٹھتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں