KHWABON-KI-TABEER.pdf
Dream interpretation
عرض ناشر
نبی کریم ﷺ نے بندہ مومن کے خواب کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے مسلمانوں کے لیے پیغام نبوت و رسالت میں حقیقی سعادت ومسرت کا سامان پنہاں ہے اسی طرح خوابوں کے ذریعے سے جو بشارتیں دی جاتی ہیں ان میں بھی بندہ مومن کے لیے خوشی ومسرت کے بیش بہا مواقع میں دوسری حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ نبوت سے صرف مبشرات“ ہی باقی رہ گئے ہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کی:” مبشرات کیا ہیں؟ فرمایا: ” خواب جو مومن دیکھتا ہے یا اس کے لیے دیکھا جاتا ہے۔ گویا کہ اچھے خواب مومن کے لیے بشارت اور خوشخبری کا درجہ رکھتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ اچھے خواب ہی آ ئیں ۔ کبھی بڑے ڈراؤنے، خطر ناک اور عجیب قسم کے خواب بھی آجاتے ہیں اور انسان بیدار ہونے کے بعد بھی ایسے خوابوں کے اثرات تا دیر محسوس کرتا رہتا ہے، جیسے اچھے خواب اللہ کی طرف سے ہیں اسی طرح برے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں ۔ خواب کی مختلف اعتبار سے کئی ایک اقسام ہیں جن کی تعبیر میں خواب دیکھنے والے کے احوال سے مختلف ہوتی ہیں ۔ ایک ہی قسم کا خواب مختلف احوال سے متعلقہ دو افراد دیکھیں تو ان کی تعبیر میں مختلف ہوسکتی ہیں۔ در اصل مختلف قسم کے خواب آنے کی وجوہات اور اسباب بھی متعدد ہوتے ہیں۔ کبھی نفسانی خیالات سبب بنتے ہیں تو کبھی معمولات بھی ذاتی طبیعت سبب بنتی ہے تو کبھی پیش آمدہ حالات کبھی خواب حقیقت کے عین مطابق ہوتا ہے اور کبھی بالکل متضاد خواب کے اس قسم کے متعدد پہلو لم تعبیر کی طرف رجوع کا تقاضا کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ اکثر اوقات صحابہ کرام ان سے پوچھتے : تم میں سے کسی نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا؟ جنھوں نے خواب دیکھا ہوتا وہ بیان کرتے اور آپ ﷺ خوابوں کی تعبیر بتاتے ۔ تعبیر بتانے کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ خواب سے متعلقہ احکام و آداب سے بھی نوازتے ۔ محدثین کرام ہم نے انھی احکام و آداب اور آپ ﷺ کی بتائی ہوئی تعبیروں کو کسی نہ کسی انداز سے اپنے اپنے مجموعہ احادیث میں شامل کیا ہے۔ اور اس طرح علم تعبیر ایک فن کا روپ دھار گیا۔ امام محمد بن سیرین جان (م110ھ) نے بھی اس فن میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ اور علم تعبیر کے امام کہلاۓ ۔ آپ کی کتاب «تفسير الأحلام» عوام وخواص کے لیے بہترین مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اس کے تراجم بھی موجود ہیں۔ علاوہ از میں اس موضوع پر شیخ عبداقی نایسی کی کتاب العطير الأنام في تعبير المنام اور غرس الدین خلیل بن شاہین ظاہری کی «الإشارات في علم العبارات، بھی نمایاں مقام رکھتی ہیں۔
اسی طرح زیر نظر کتاب ”خوابوں کی تعبیر میں جو در اصل امام ابن راشد البکری
القفص اللہ (م736ھ ) کی عربی تصنیف «المرتبة العليا في تفسير الرؤيا» کا
اردو ترجمہ ہے، یہ بھی فن تعبیر میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ قبل ازیں اس کتاب کااردوترجمہ نہیں ہوا تھا ۔ دارالسلام نے پہلے انگریزی میں اس کا ترجمہ شائع کیا اور اب سلیس رواں اور شایان شان اردو ایڈیشن آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ یادر ہے کہ بعض اوقات خواب بڑے عجیب وغریب بلکہ بیہودہ قسم کے آتے ہیں مگر ان کی تعبیر بڑی عمدہ ہوتی ہے۔ اسی لیے تعبیر کے موضوع پر ہر کتاب میں بظاہر عجیب و غریب اور ھریاں خواب بھی دیے جاتے ہیں تا کہ ایسے خوابوں کی تعبیر تک پہنچا جاسکے۔ زیر نظر کتاب میں بھی آپ کا گزر ایسے خوابوں سے ہوگا مگر یہ اس فن کی مجبوری ہے جس کے بیان کے بغیر موضوع نامکمل رہتا ہے۔ کتاب ہذا میں خواب کی حقیقت ، اقسام، علم تعبیر، انبیائے کرام ﷺ اور صحابہ کرام ان کے خواب اور ان کی تعبیر میں پیش کی گئی ہیں اور خواب میں دیکھی جانے والی شخصیات یا اشیاء کے اعتبار سے 17 ابواب میں ہزاروں خوابوں کی تعبیر میں عمدہ ترتیب سے پیش کی گئی ہیں ۔ کتاب کی ترتیب اور تعارف کو مؤلف اللہ نے ”پیش لفظ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ مؤلف کے حالات زندگی بھی علیحدہ سے مضمون کی شکل میں دے دیے گئے ہیں۔ اس کتاب کا ترجمہ محمد واصف مرحوم نے کیا تھا مگر ابھی تکمیل نہ ہوئی تھی کہ وہ زندگی کی 37 بہار میں گزار کر اس عارضی جہاں سے رخصت ہوگئے ۔ آہ!! آج وہ اپنے اس کام کو کتاب کی شکل میں دیکھ کر یقینا خوش ہوتے ۔ اللہ تعالی ان کی ان کاوشوں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بناۓ ، ان کی لغزشیں معاف فرماۓ اور فردوس بر میں میں انھیں
اعلی مقام سے نوازے۔ واصف مرحوم کی وفات کے بعد ادارے کے فاضل نوجوان حافظ قمر حسن نے ترجمے کی تکمیل بھی کی اور تسہیل و نظر ثانی کا کام بھی بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا۔ ان کا شکر ہے 35 رنا بھی ضروری ہے۔
دارالسلام لاہور کے جنرل منیجر حافظ عبدالعظیم اسد اور شعبہ تحقیق ، کمپوزنگ اور ڈیزائننگ کے احباب بھی میرے شکر و سپاس کے مستحق ہیں کہ انھوں نے بڑی عمدگی سے کتاب کو طباعتی مراحل تک پہنچایا۔ اللہ ان سب کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کتاب کو عوام وخواص کے لیے نفع مند بنائے ۔ اس میں جو خوبی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو بھی خامی ہے وہ ہمارے نفس اور شیطان کی طرف سے ہے۔ ہم اللہ سے رحمت اور بخشش کی امید رکھتے ہیں۔
خادم کتاب وسنت عبدالمالک مجاہد
کے حالات زندگی
نام محمد بن عبداللہ بن راشد اور کنیت ابوعبداللہ ہے۔ قبیلہ بنو بکر سے تعلق تھا۔فقہی 36 عتبار سے مالکی مکتبہ فکر کے حامی تھے۔ تونس کے شہر قفصہ میں پیدا ہوۓ اور عرصے تیک وہ ہیں تعلیم حاصل کرتے رہے، پھر دارالحکومت تونس روانہ ہو گئے ۔ وہاں بھی سلسلہ تعلیم جاری رہا۔ اس کے بعد اعلی تعلیم کے حصول کے لیے قاہرہ اور اسکندریہ کا رخ کیا۔ 680 ھ میں حج کی سعادت سے بہرہ ور ہوۓ علم کی دولت سے مالا مال ہو کر تونس لوٹے ۔ قصہ ہی میں عرصے تک قاضی کے فرائض انجام دیتے رہے، بعد میں انھیں منصب قضا سے ہٹا دیا گیا۔ اساتذہ اور مشائخ به
فاضل مصنف امام ابن راشد قفصی عرصۂ دراز تک امام شہاب الدین قرانی کی خدمت میں حاضر رہے ۔ اٹھی سے فقہ کی تعلیم حاصل کی اور علمی طور پر بہت نفع اٹھایا۔ امام شہاب الدین قرانی نے انھیں فقہ واصول فقہ میں درجہ امامت کی سند بھی عطا فرمائی ۔ امام تقی الدین ابن دقیق العید، جن سے انھوں نے فقہ میں مختصر ابن الحاجب پڑھی۔ امام ضیاء الدین علاف، جن سے فقہ کی عمومی تعلیم حاصل کی ۔ قاضی ناصر الدین ابیاری جو ابوعمرو ابن الحاجب کے شاگرد ہیں ۔ حافی الراس (ننگے سر) کے لقب سے معروف امام محیی الدین ۔ اور امام شمس الدین اصبہانی۔ علماء کی تقریظیں .
37
* امام ابن فرحون کے مطابق مصنف کتاب امام ابن راشد قصی عربی زبان و ادب کے ماہر تھے۔ امام ابن فرحون ہی نے لکھا ہے کہ وہ عربی زبان کے بہت بڑے عالم اور خوابوں کی تعبیر کے ماہر کامل تھے۔ خیرالدین زرکلی نے الاعلام میں لکھا ہے کہ امام ابن راشد قفصی مالکی فقہ کے عالم تھے۔ عمر رضا کحالہ ان کی تعریف میں یوں رطب اللسان ہیں: ” فقیہ، ادیب اور عربی زبان کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ کئی علوم سے واقف تھے۔“
مقتل تصانیف . فقہ میں شہاب ثاقب کے نام سے مختصر ابن الحاجب کی شرح ۔ المذهب في ضبط قواعد المذهب، یہ کتاب چھ جلدوں پر ستمل ہے۔ امام ابن فرحون کا بیان ہے کہ امام ابن راشد نے اس میں بہترین علمی فوائد جمع کیے ہیں۔ میں نے ابوعبداللہ ابن مرزوق کو کہتے سنا کہ فقہ مالکی میں اس جیسی کتاب تصنیف
نہیں ہوئی۔ لب اللباب، یہ کتاب فقہ مالکی کے فروعی مسائل پرمشتمل ہے اور زیور طباعت سے آراستہ ہوچکی ہے۔
المرتبة السنية في علم العربية. المرتبة العليا في تعبير الرؤيا، اس کتاب کے متعلق امام ابن فرحون کا کہنا ہے کہ اپنے باب میں بہترین کتاب ہے۔ یہی کتاب اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
التظلم البديع في الختصار التفريع. نخبة الواصل في شرح الحاصل، یہ کتاب اصول فقہ پر تحفة اللبيب في اختصار كتاب ابن الخطيب. الفائق في الأحكام والوثائق، یہ کتاب آٹھ جلدوں پرمشتمل ہے۔ امام ابن فرحون کا بیان ہے کہ ان تصانیف کے علاوہ امام ابن راشد کی کئی اور مفید
تصنیفات بھی ہیں۔
وفات .
امام ابن فرحون نے بیان کیا کہ مجھے امام ابن راشد کی تاریخ وفات نہیں مل سکی، تا ہم کہا جاتا ہے کہ 731ھ میں وہ بقید حیات تھے۔عصر حاضر کے عظیم مؤرخ خیر الدین زرکلی نے ان کی تاریخ وفات بڑی صراحت سے 736 لکھی ہے۔ امام این راشد کے حالات زندگی کے ماخذ مج
الديباج المذهب، امام ابن فرحون،339,328/2 -
نيل الابتهاج تنبکی ، یہ کتاب الدیباج کے حاشیے پر چھپی ہے (236,235)
شجرة النور الذكية مخلوف (210/1)
إيضاح المكنون، بغدادی (464,399/2)
هدية العارفين، بغدادي (135,134/2)
الأعلام، خیر الدین زرکلی (234/6) | معجم المؤلفين، عمر رضا کحالہ (214,213/10)
لڑکپن میں جب مجھے ذرائع علم و معاش سے بخوبی واقفیت نہیں تھی ، طرح طرح کی پر پیشانیاں اور وساوس میرے ذہن میں ڈیرے ڈالے رکھتے تھے۔ ایسے میں، میں طلب علم کے لیے مصر روانہ ہوا۔ مجھ پر حصول علم کی دھن سوار تھی۔ مصر میں مجھے مختلف علما ومشائخ سے استفادے کا موقع ملا۔ میں نے ان سے معقولات ومنقولات کے مختلف علوم حاصل کیے اور ان کے افادات علمی سے اپنے دامن طلب کو خوب خوب بھرا۔ دوران تعلیم میں جن علوم سے مجھے گہرا شغف تھا ان میں ایک علم خوابوں کی تعبیر کا بھی تھا۔ خوابوں کی تعبیر کا عظیم علم انبیاء کے علوم کا حصہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیج خواب حقائق پینی ہوتا اور انسان کو آئندہ حالات و واقعات سے آگاہ کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میچ خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔سیدنا ابو ہریرہ ﷺ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” جب قیامت نزدیک آ جاۓ گی تو مسلمان کا کوئی خواب غلط ثابت نہیں ہوگا۔ ان میں سب سے سچے خواب دیکھنے والا وہ شخص ہوگا جو سب سے زیادہ سچ بولتا ہوگا۔ بے شک مسلمان کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں ۔ حصہ ہے۔" ام المومنین عائشہ یا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میرے بعد
صحيح مسلم، الرؤيا، باب في كون الرؤيا من الله تعالى، حدیث:2263.
پیش لفظ
40
صرف مبشرات ( خوشخبری دینے والے خواب) باقی رہ جائیں گے ۔ صحابہ تم نے عرض کیا: ”اے اللہ کے رسول ! ” مبشرات کیا ہیں؟“ آپ نے فرمایا: ”اچھا خواب جو مسلمان دیکھتا ہے یا اس کے لیے دیکھا جاتا ہے ۔
میں نے قاہرہ میں امام شہاب الدین قرانی سے ملاقات کی ۔ وہ اس علم میں امامت کے مرتبے پر فائز تھے۔ مشکل خوابوں کی تعبیر معلوم کرنے کے لیے اٹھی سے رجوع کیا جا تا تھا۔ اس سلسلے میں ان کی مہارت تامہ کا یہ عالم تھا کہ وہ خواب دیکھنے والے کو اس کا نام، اس کے والد کا نام، بیوی بچوں کے نام اور اس کے گھر کی حالت تک بتا دیتے تھے۔ میں نے ان سے کتاب «البدر المنير في علم التعبير » پڑھی۔ انھوں نے مجھے اس کی اجازت تدریس بھی عطا فرمائی۔ میں عرصہ دراز تک ان سے منسلک رہا اور ان کے علم سے مستفید ہوتا رہا۔ ان کے بہت سے افادات علمی میں نے زبانی بھی یاد کیے۔ غرضیکہ ان کے فیضان علم سے میں خوب خوب سیراب ہوا۔ گو میری بضاعت علمی علامہ ممدوح سے کہیں کم ہے، پھر بھی اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مجھے ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔
اللہ تعالی نے پھر مجھے تصنیف وتالیف کی توفیق عطافرمائی اور میں نے مختلف علوم پر کتب تصنیف کیں ۔ میری کتابیں کل ملا کے تقریبا ساٹھ جلدوں تک پہنچتی ہیں۔ تب میں نے ارادہ کیا کہ میں اس موضوع پر بھی ایک کتاب تصنیف کروں۔ ممکن ہے کہ علوم انبیاء کے بحر بے کراں سے کچھ قطرے میرے حصے میں بھی آجائیں اور میں اولیاء اللہ کے راستے پر گامزن ہو جاؤں۔ یہ سوچتے ہوۓ میں نے مختصری کتاب تصنیف کی جس میں، میں نے وہ سب کچھ ذکر کر دیا ہے جو استاذ امام شہاب الدین ابن نعمہ قرانی سے سیکھا اور جس مسند احمد: 129/6.
کا ذکر البدر المنیر میں ہوا ہے۔ ساتھ ہی میں نے اس کتاب میں الإشارة في العبارة کے جملہ مسائل بھی بیان کر دیے ہیں ۔ یہ کتاب امام نیشاپوری کی تصنیف ہے اور دو جلدوں پر مشتمل ہے، نیز اس علم کے بڑے علماء سے میں نے جو بھی علمی فوائد حاصل کیے، وہ سب میں نے اس کتاب میں بیان کر دیے ہیں ۔ اس کتاب کا نام میں ن المرتبة العليا في تعبير الرؤيا رکھا ہے تا کہ میراسم باسمی ثابت ہو ۔ کتاب کا عنوان ہی اس کے مندرجات کے بارے میں بتاتا ہے۔ جسے اپنے میدان میں ان مسائل و مشکلات سے گزرنا پڑا جن سے میں گزرا ہوں ، وہ کتاب میں ذکر کیے گئے عجیب وغریب معاملات کو سمجھے گا اور جان لے گا کہ میں نے اس علم میں سخت محنت کی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بسیج روی سے محفوظ رکھے اور بشری تقاضے کے تحت کتاب میں کسی بھی قسم کی غلطی کو معاف فرمائے اور ہمیں اپنے قریب کر کے اپنی رضا مندی سے سرفراز فرماۓ ( آمین ۔ میں نے اس کتاب کو ایک مقدمے اور چند ابواب میں ترتیب دیا ہے۔ مقدمہ چھ حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ نفس کی حقیقت کے متعلق ہے کیونکہ خواب کا ادراک نفس ہی کو ہوتا ہے۔ دوسرا حصہ خواب کی حقیقت کے بارے میں ہے۔ تیسرا حصہ خواب کی مختلف اقسام کے بارے . میں ہے۔ چوتھا حصہ بعض تعبیروں کے متعلق ہے جو نبی کریم ﷺ یا بعض صحابہ کرام بیا * «البدر المنير في علم التعبير، شیخ شہاب الدین ابوالعباس احمد بن عبدالرحمن بن عبد السهم مقدی کی تالیف ہے۔ آپ ابن نعمہ کی کنیت سے پہچانے جاتے تھے۔ یہ کتاب استنبول میں احمد الثالث کی لائبریری میں موجود ہے (3168 ) ۔ اس کی فوٹواسٹیٹ معہد مخطوطات العربیہ نے حاصل کی ہے۔ الإشارة في علم العبارة، جلال الدین عبدالله بن سليمان بن حازم مزی کی تصنیف ہے۔ اس کا ایک نسخہ استنبول میں، احمد الثالث کی لائبریری میں محفوظ ہے (3166 ) ۔42 بتائیں۔ ان کا ذکر اول تو برکت کے لیے کیا ہے، دوسرے اس لیے کہ ان میں بعض ن باتوں کی دلیل ملتی ہے جن پر خواب کی تعبیر کرتے وقت اعتماد کیا جا تا ہے۔ پانچواں حصہ خواب دیکھنے والے اور اس کی تعبیر بتانے والے کے آداب کے متعلق ہے ۔ چھٹا حصہ ان اصولوں سے تعلق رکھتا ہے جنھیں معبرین خواب کی تعبیر بتاتے وقت پیش نظر رکھتے ہیں ۔ بیکل اٹھارہ اصول ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: مشابہت (اس اصول کو سب سے زیادہ مد نظر رکھا جا تا ہے)، اشتقاق بقیف، لفظ میں حرکات و اعراب کی تبدیلی ،لزوم ، خاتمہ وانجام، تضاد،عوام الناس کی زبان کا اعتبار، لغوی وعرفی مثالوں کا اعتبار، قرآن وحدیث کے دلائل، شعر کے دلائل، اشتراک یا تواطو (موافقت) کے لحاظ سے لفظ کی دلالت کا اعتبار * یا اس کے مجازی استعمال کا اعتبار، حروف کی تعداد کا اعتبار، حروف کے اعداد کا اعتبار، دیکھی گئی چیز کتنی بار خواب میں نظر آئی اس کا اعتبار، مجبر کو خواب بتانے والے کا اعتبار مختلف ناموں اور واقعات کا اعتبار، ای بحث میں اسم کے مشتق ہونے اور خواب میں واقعات یا اشیاء کے باہمی تعلق کے متعلق بھی بنایا گیا ہے۔ ۔ یہ کتاب سترہ ابواب پر پہلا باب خواب میں اللہ تعالی ، انبیاء وصحابہ اور صلحائے امت کو دیکھنے کے بارے میں ہے ۔ دوسرا باب آسان اور اس کے متعلقات کو دیکھنے کے بارے میں ہے۔ تیسرا باب اشتراک کے لحاظ سے لفظ کی دلالت کا مطلب یہ ہے کہ لفظ کے ایک سے زیادہ معنی ہیں ۔ اس کو مشترک لفظی بھی کہا جا تا ہے جیسے کہ لفظ عین ہے جس کے کئی معنی ہیں: ایک معنی دیکھنے والی آنکھ کے ہیں۔ ایک معنی پانی کے چشمے کے اور ایک معنی جاسوس کے ہیں ۔ تو اطو ( موافقت) سے شاید مصنف کی مراد خاص طبقے یا قوم کا لغوی عرف ہے جیسے کہ بعض لوگوں کا عورت کو نعجة یعنی بھیڑ کہنا۔ جنات ، ہوا، دن رات ، موسم اور اس کے متعلقات جیسے بارش، برف، بادل، بجلی اور قوس قزح کے دیکھنے کے متعلق ہے۔ چوتھا باب زمین اور اس پر موجود پہاڑ، معدنیات، پتھر، کنگر،ریت اور مٹی کو دیکھنے کے تعلق سے ہے۔ پانچواں باب باغات، درختوں، شہروں ،سمندروں اور کشتیوں کو دیکھنے کے بارے میں ہے۔ چھٹا باب شہروں، ان میں موجود بڑے گھروں، دکانوں، شہر کے گوشوں، سرائیں، تیل نکالنے والی مشینوں، چھوٹے گھروں، کمروں ، منزلوں ، دروازوں اور سیٹرھیوں کو دیکھنے کی بابت ہے۔ ساتواں باب حیوانات کے متعلق ہے، اس باب کے تین حصے ہیں: پہلا حصہ حیوانات کی مختلف انواع واقسام کی تعبیر کے متعلق ہے۔ اس کے تحت بھی
تین ابواب ہیں: وہ حیوان جو چلتا ہے، وہ جو اڑتا ہے اور وہ جو پانی میں تیرتا ہے۔ چلنے والے حیوان کی دوقسمیں ہیں: وہ جو شہروں میں ہوتا ہے اور وہ جو جنگلات میں ہوتا ہے۔ وہ حیوان جو شہروں میں ہوتا ہے، اس کی دو قسمیں ہیں: وہ حیوانات جن میں فوائد ہیں اور وہ جو بے فائدہ ہیں۔ پہلی قسم میں انواع پر مشتمل ہے ، گھوڑے، خچر، گدھے، اونٹ، گائے ، بکری ، مرغی، کبوتر ، بلخ، ایسے پرندے جو پنجروں میں رکھے جاتے ہیں ،شہد کی مکھی اور ملتے ۔ دوسری قسم ان حیوانوں کی ہے جو بے فائدہ ہیں جیسے ھی ، بیوٹی وغیرہ۔ دوسرا حصہ جانور کے ذبح کرنے ، اس کے انسان سے کلام کرنے ، انسان کے حیوان میں تبدیل ہونے اور ایک حیوان کے کسی اور حیوان میں تبدیل ہونے ،حیوان کے انسان سے اچھا سلوک کرنے ، اس کے انسان کے لیے ضرر رساں ہونے اور دونوں کے ایک دوسرے کو سجدہ کرنے کے متعلق ہے۔ انسان کے حیوان کے پنجرے میں داخل ہونے اور اس کے حیوان سے اپنی حاجتیں اور ضرورتیں مانگنے کے بارے میں بھی اسی حصے میں تفصیل بیان کی گئی ہے۔ تیسرا حصہ حیوان کے جسم سے نکلنے والی مختلف مائع اشیاء، اس کے مختلف اجزا اور اس کی آوازوں کے متعلق ہے۔
آٹھواں باب بنی آدم کے متعلق ہے ۔اس باب کے بھی تین حصے ہیں: 44 پہلا حصہ: بنی آدم کی عمر، ان کے رنگ نیز معلوم و مجہول اور مرد وعورت میں فرق ۔ دوسرا حصہ: جسم انسانی کے ہر عضو کی تعبیر، ان پر نکلنے والے بالوں کی تعبیر، بال مونڈھنے ، چھوٹے کرانے ،ان کے بکھرنے اور ان میں تی ، اور ان میں تیل ڈالنے کی تعبیر، بال کو سنوارنے اور کنگھی کرنے کا حکم، ان میں پیدا ہونے والی جوؤں اور ان کے انڈوں کی تعبیر، ڈاڑھی، اس کی پراگندگی اور اس میں خضاب لگانے کی تعبیر جسم کے موٹاپے، جسم کے لمبا یا چھوٹا ہونے ، اس میں کو بڑا نکلنے اور ٹھیوں کے پھول جانے کی تعبیر اور تھیلی کے اندر اور باہر بھنگ کے اگنے کی تعبیر۔
تیسرا حصہ: وہ فضلات جو ابن آدم کے بدن سے خارج ہوتے ہیں جیسے لعاب، آنسو، بول و براز ، پسینہ، ریح، تھوک، ناک کا فضلہ بلغم ، تے ، چھینک، کھانسی، جماہی، نی، پیچ ، ابن آدم اس کے منہ سے آنے والی بو، بدن میں یا اس کے کسی حصے میں لگتے والی بیماری ، انسان کا اپنے کسی عضو میں داخل ہونا ، مرد اور عورت کو مل ہونا اور دونوں کو ولادت ہونا۔ تیسرے حصے کے آخر میں ہم نے ادویہ مشروبات اور تیل ، نشر منہ لگانے ، تیل یا دوا کو ناک میں سو فتنے ، حقنہ کرنے سینگی لگوانے ، فصد لینے اور لوہے سے داغنے کا
ذکر کر کے اس تیسرے حصے کوختم کیا ہے ۔ نواں باب : ماکولات ومشروبات کے متعلق ۔ ماکولات کی چار میں ہیں: پہلی قسم : اناج اور اس سے بننے والے کھانے ۔ اسی طرح سے وہ اشیاء جو کھانے کی اصلاح کے لیے استعمال ہوتی ہیں جیسے نمک وغیرہ۔ علاوہ ان میں سائن کے طور پر استعمال
والی اشیاء جیسے تیل ، سرکہ، مربا، یا ساتھ میں استعمال کے لیے جیسے شہد ، چینی یا اس سے تیار کی جانے والی اشیاء۔ دوسری قسم : گوشت اور اس کے مسالے جو اس کو مزیدار پٹانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں جیسے مرچ وغیرہ۔ تیسری قسم تر اور خلک پچھل۔ چوتھی قسم لہسن، پیاز اور دیگر سبزیاں ، اسی قسم میں ان اشیاء کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے جو سو تھی جاتی ہیں۔ مشروبات کے بیان میں پانی ،شراب اور شراب کے نشے کا ذکر بھی موجود ہے۔ اسی طرح سے وہ نشہ جو شراب کے علاوہ دوسری اشیاء سے پیدا ہوتا ہے، نیز وہ نشہ جو پاگل پن، بے ہوشی اور نیند کا سبب بنتا ہے۔ اس باب کے آخر میں ہم نے مہنگائی اور اشیاء کے سستے ہونے کے دلائل دیے ہیں، نیز میٹھے کے کھٹے میں تبدیل ہونے اور کھٹے کے میٹھے میں تبدیل ہونے کا بھی ذکر کیا ہے ۔اسی طرح اچھی شے کے خراب شے میں تبدیل ہونے اور خراب شے کے اچھی شے میں تبدیل ہونے کا بھی ذکر ہے۔ دسواں باب ملبوسات کے بیان میں ہے۔ اس میں قالین اور پردے کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے۔ مویشیوں کے پہناوے جیسے زمین، کمبل، نیز ان کے اوپر رکھنے کی بوریوں اور تھیلوں کا بھی ذکر ہے۔اس کے علاوہ زیور کے کپڑے، بہترین کپڑے، ماہواری کے کپڑے، انگوٹھی کا کپڑا نیز ریشم کے لیے، پنڈال اور دیگر اقسام کے ٹیموں کا ذکر ہے۔ گیارہواں باب عبادات کے متعلق ہے۔اس میں سلام، مصافحے ،معانقہ کرنے ، نیز اسلام کے دلائل ، ختنہ کرنے ،مسواک کرنے اور ہاتھوں کو دھونے کی تعبیر شامل ہے۔ بارہواں باب اوزاروں کے متعلق ہے۔ یہ باب دیس حصوں پر مشتمل ہے: پہلی فصل آلات حرب کے بیان میں ہے۔اس کے متعلقات جیسے جنگ قتل و غارت، سولی پر چڑھانا، زخم ،جیل، قید ہتھکڑی، لڑائی جھگڑا، بغض، دھمکی ظلم، حد، دھوکہ، لات مارنا ،ضرب، خراش آنا، پتھر سے کچلنا، رحم کرنا، برا بھلا کہنا، مذاق اڑانا، معاف کرنا،46 ، عیب کوئی، خصه، قصه پریا گشتی ، شمشیر زنی، فلست، راہ فرار اختیار کرنا ، سفر، چھلانگ مارنا، کودنا، بھاگنا ،متوسط چال چلنا، زمین میں غائب ہوجانا، سفر کے لیے سوار ہونا اور سفر سے واپس آنا، وطن سے نکلنا، الوداع کہنا صلح کرنا، غرضیکہ ان سب کا ذکر بھی شامل ہے۔ دوسری فصل: سواری کا سامان جیسے زمین کمبل یا دری، لگام ، کوڑا، سونی ، مہار (نکیل)، کجاوہ (محمل)، پردہ۔ تیسری فصل: آلات لہو ولعب اور اس کے متعلقات کے بیان میں جیسے گانے کی تعبیر، رقص، شادی بیاہ، نیز اس میں لگاۓ جانے والی خوشبو، سرم، سرمہ دانی کی تعبیر، کانچ یا دھات کا سرمہ کش، آئینے میں اپنے آپ کو دیکھنے کا اور بھاری اشیاء کی تعبیر کا ذکر ہے۔ چوتھی فصل کھیل کے آلات کے بیان میں جیسے شطرنج کے مہرے ،نرو( چوسر کی طرح کا ایک کھیل جو ڈہری بساط پر کھیلا جا تا ہے )، اخروٹ سے کھیلنا اور مرد کے مہرے یا نگینے۔ پانچویں فصل: گھر کے افراد اور ساز وسامان کے بیان میں جیسے گھرانہ کرسیاں اور پلیٹ ، بڑی پلیٹ، ہنڈیا، دستر خوان ، پنجرہ، لاٹھی ، پیکھا، پانی کے برتن جیسے مٹی کا گھڑا، پانی کا حوض، اسی طرح اشیاء کی حفاظت کا ساز وسامان جیسے الماریاں، صندوق ، عورتوں کے استعمال کی اشیاء جیسے سوت کاتنے کا چرخہ یا مشین، کھی، عام سرمہ دانی کاری یا دھات کی سرمہ دانی، اس کے علاوہ چیزوں کو باہم جوڑ نے کاٹنے ، توڑنے ، کھولنے...... کے لات جیسے ہاون دستہ، استرا، درانتی ، کدال یا پچھاوڑا، بغدا، بیلچہ، یخ، کیل، شیخ، چابیاں، ترا و...... چھٹی فصل: آگ جلانے کے اوزاروں کے بیان میں جیسے لکڑی ، کوئلہ، لوہار کی دھونی تندور ، چرا موم بی ،قند میں اور راکھ۔ ساتویں فصل: آلات کتابت کے بیان میں جیسے قلم ، دوات نقش ، روشنائی ، کاغذ ، کتاب قینچی، کاغذ کاٹنے کا خنجر ۔ آٹھویں فصل: سونے ، چاندی اور ان سے بننے والی اشیاء کے بیان میں، اس فصل میں قیمتی پتھروں ، دیناروں، درہموں اور ان میں سے کسی کے قریب ہونا،تعزیت کرنا ، انسان کو اس کے نام کے علاوہ کسی اور نام سے پکارنا ، ترکی نفس ، خوشامد، رخصت کرنا، چھپنا، تسال بریتا، کسی چیز کا کھچا یا لمبا ہوتا، چوکیداری، لکڑیاں اٹھانا تم ، سوال، کام، شفاعت، بڑ کی آواز ، بہت سے درہم اور دینار کی آواز ، بالوں کی چوٹی ، لمبائی، چھوٹائی ، مطالبہ، بلندی ، درگز ر کھیتی باڑی ، گفتی اور اس کے الفاظ ، تعجب، غلام آزاد کرنا، پاکدامنی، جلد بازی، عتاب، فراست،عقل، طاقت ، سخت بھیڑ ، انسان کے اعضاء کا اور درخت کا انسان سے بات کرنا، نتیجہ، ملامت ، تسبیح، تیاری، نصیحت، تنہائی، لمبی گہری سانس لینا، رونا، دل کا تیزی سے دھڑکنا ، صبر، کا نا، چٹکی بھرنا، مومن کا کافر ہو جانا اور دار کفر کی طرف منتقل ہو جانا، بت کو دیکھنا اور غیر اللہ کے لیے سجدہ کرتے دیکھنا۔ سولہواں باب: حالت نزع ، موت اور اس کے متعلقات جیسے غسل، کفن، کافور، جنازے کا اٹھانا، نماز جنازہ، وقوف، مردوں کو دیکھنا اور ان سے کچھ لینا،ان کی مدد کرنا، ان کے ساتھ چلنا۔ سترہواں باب: قیامت اور اس کی علامات، ترازو، پل صراط، جنت، دوزخ کی تعبیر، انسان کا اپنا اعمال نامہ سیدھے یا الٹے ہاتھ . سے پکڑنا یا پیٹھ پیچھے سے پکڑنا۔ اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے ہمیں دین و دنیا کی بھلائی و کامیابی سے ہمکنار فرمائے (آمین۔).
bhtreen
جواب دیںحذف کریں